کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 37
نیز تاتاریوں کے خروج، صلیبی جنگوں، مارٹن لوتھر کی اصلاحی تحریک کے اسلامی مملکتوں پر اثرات، بیرونی طاقتوں کو مدد کے لئے بلانا، ایجنسیوں کا آلہ کار بن کر تحریکیں چلانے کو زوالِ اُمت کے اہم خارجی عوامل قرار دیا ۔ اس کے بعد اُنہوں نے ان اثرات اور نقصانات کا تذکرہ کیا جو اسلام کے زوال اور اسلامی قیادت کی محرومی سے مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کو اٹھانے پڑے کہ جاہلیت کا پرانا دور پھر دنیا پر چھاگیا، بدعات اور گمراہ فرقے پھر سر اُٹھانے لگے، دعوتِ دین کا کام رک گیا۔ تعلیمی مراکز اور کفالت ِطلبا کا نظام ختم ہونے سے ذرائع تعلیم معدوم ہوگئے۔ علوم یورپ کی طرف منتقل ہوگئے، اسرائیل کی شکل میں ایک ناسور دنیا کے نقشہ پر اُبھرا جس کے زہریلے اثرات پوری دنیا میں سرایت کررہے ہیں۔ دینی تحریکوں کے حاملین ہزار وں علما قتل کئے گئے۔ یہودیوں کے آلہ کار مسلم اُمہ پر مسلط کردیے گئے، مسلمانوں کے لئے زہرقاتل اقوامِ متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا۔ مسلمانوں پر تجارتی اور معاشی پابندیاں لگیں، غیر فطری قوانین زبردستی نافذ کئے گئے، مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کیاگیا وغیرہ۔ اُنہوں نے ایسے متعدد مصائب اور نقصانات کا تذکرہ کیا جن کو سنتے ہوئے انسان شدت سے محسوس کرتا ہے کہ دنیا کی موجودہ صورتحال کو بدلنے کی شدید ضرورت ہے اور اس عالمی اسلامی قیادت کو دوبارہ حاصل کرنا نہایت ضروری ہے جو مسلمانوں نے اپنی مجرمانہ کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے کھو دی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس عالمی خسارہ اور نقصانات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسانیت کو قرآن و سنت کے سرچشمہ ہدایت پر لاکھڑا کیا جائے اور مذکورہ بالا ان تمام عوامل پر سنجیدگی سے غور کیا جائے جس کی وجہ سے ہمیں بلکہ پوری دنیا کو ذلت اور پریشانی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ٭ شام کے سیشن میں مولانا ابوعمار زاہد الراشدی مدیرماہنامہ ’الشریعہ‘ نے ’اسلام میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا تصور‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روشنی اور اعتدال تو اسلام کے مزاج میں داخل ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ﴿يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ إلَى النُّوْرِ﴾ اور ﴿ وَكَذَلِكَ جَعَلْنٰكُمْ أمَّةً وَّسَطًا﴾ اُنہوں نے کہا کہ اسلام نے ہی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہودیت و نصرانیت کو اعتدال کا راستہ دکھایا۔پوری دنیا کو غلو اور افراط و تفریط کے درمیان اعتدال کی راھ دکھائی، رہبانیت اور مادّہ پرستی کے درمیان راہ اعتدال