کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 36
کافی متاخر ہیں۔ ٭ چوہدری یٰسین ظفر مدیر تعلیم جامعہ سلفیہ، فیصل آباد نے ’عالم اسلامی کی موجودہ صور تِ حال‘ کا تعارف کرواتے ہوئے اسلامی ممالک کے نظامِ حکمرانی، جغرافیہ، رقبہ اور آبادی کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ اسلامی ممالک ایشیا سے مراکش تک 20 ہزار کلومیٹر کے رقبہ پر مشتمل ہیں۔ دنیا کی اہم ترین بندرگاہیں اور تمام گزرگاہیں، جبل طارق ،نہر سویز، خلیج عدن، خلیج فارس تمام مسلمانوں کے پاس ہیں، جن سے لاکھوں ڈالر یومیہ کی آمدن حاصل ہوتی ہے اور جن کے بند کردینے سے دنیا کا کوئی بحری بیڑا حرکت نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ گرم مرطوب موسم، قدرتی نظامِ آبپاشی، وسیع زرخیز زمین، بہترین قدرتی دریا، وافر بارش، دنیا کابہترین چاول اور گندم، دنیا کی 40 فیصدکپاس کا مصر، سوڈان اور پاکستان سے پورا ہونا؛ دنیا کی بہترین سبزیاں، خوردنی تیل، بہترین پھل کہ پاکستان 40 فیصد آم برطانیہ کو بھیجتا ہے۔ ضرورت سے زائد گوشت اور دودہ ، دنیا کا 70 فیصد تیل، قدرتی گیس کا عظیم ذخیرہ، پاکستان میں کوئلہ کے بڑے بڑے پہاڑ، ایٹم بم میں استعمال ہونے والی یورینیم جوالجزائر پوری دنیا کو سپلائی کرتا ہے، یہ اللہ کی ایسی نعمتیں ہیں جن سے اکثر مغربی دنیا محروم ہے، ا س کے باوجود مغرب ہم پر حکمران ہے اور اُمت ِمسلمہ زوال اور ذلت کا شکار !! اس کے بعد اُنہوں نے ان اسباب اور عوامل کا جائزہ لیا جن کی وجہ بارہ صدیاں تک یورپی دنیا پر حکمرانی کرنے والے مسلمان ذلت وپستی کا شکار ہو گئے ۔ مسلمانوں کے عروج کا عالم یہ تھا کہ بعض اوقات دنیا کی کوئی بندرگاہ ایسی نہیں تھی جس پر مسلمانوں کا جھنڈا نہ لہراتا ہو۔ دیگر ممالک مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور ان کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے پر فخر کیا کرتے تھے۔ ہر گھر بنیادی ضرورتوں سے آراستہ تھا، شیشوں کے پائپوں کے ذریعے چشموں کا پانی اندلس کے شہروں میں پہنچتا تھا اور مسلم سائنسدانوں نے اندلس کے پورے پورے شہروں کو ان کے چاروں طرف باغ اور اندر چشمے لگا کر ایئرکنڈیشنڈ کردیا تھا، اب وہی مسلمان ذلت و محکومی کا شکار کیوں ہیں؟مولانا نے فرقہ بندی، مذہبی اور لسانی و قبائلی تعصب، علومِ وحی سے دستکش ہوکر فلسفہ اور علم الکلام کو مقصد بنانا، سیاسی انتشار، باطنی گروہوں کے تسلط، غیروں پر اعتماد اور اسلامی ممالک سے عداوت کو مسلمانوں کے زوال کے داخلی عوامل قرار دیا۔