کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 33
اُنہوں نے مسلمانوں کی علمی تحریک کی نمایاں خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی دفعہ قرآن و سنت کے چشمہ سے پھوٹنے والے عقائد و نظریات کو عبادات ومعاملات کی صورت میں عملاً وجود بخشا گیا۔ کتاب اللہ کی بنیاد پرمرتب ہونے والا نقشہ عملی تھا، جسے سیرتِ رسول اور حدیث کا نام دیا گیا۔مسلمانوں کے علم کی بنیاد قابل اعتماد سند اور روایت پر ہے جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مستشرقین نے صلیبی تعصب کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف علم و تحقیق کا جو میدان سجایا اور مسلمانوں پر اعتراضات کئے تو اس کا سارا مواد قرآن و سنت (علم وحی) سے نہیں بلکہ تاریخ کے بطن سے فراہم کیا۔ مغازی عروہ بن زبیر، واقدی، محمد بن اسحق کی سیرت اور طبقاتِ ابن سعد کی ایک ایک جلد پر ان کے پروفیسرز نے کام کیا اور اس پر استشراق کی پوری عمارت تعمیر کی۔ اُنہوں نے کہا کہ جب قرآن کا مطالعہ یونانی فکرو فلسفہ اور عقل کو معیار بنا کر کیا گیا اور پھر ایرانی علوم اور باطنی تصورات کی آمیزش اسلام کے ساتھ ہوئی اور یہ فکر جب مذاہب کے جنگل ہندوستان میں پہنچی تو اس کے نتیجے میں اسلام کا ایک نیا ایڈیشن ’تصوف‘ کی صورت میں پیدا ہوا جو اسلام کی اس علمی تحریک کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ جب تک مسلمان نے اپنے دو علمی دھاروں: علم وحی اور علم الاشیاء سے سیرابی کا سامان کرتے رہے، اس وقت تک دنیا ان کی محتاج تھی۔ یورپ کے حکما ان کے علم سے زلہ ربائی کرتے رہے، ان کی کتابیں یورپ کی یونیورسٹیوں میں بطورِ متن پڑھائی جاتی رہیں، لیکن جب یہ دھارے خاموش ہوگئے تو پھر ہم دنیا کا ساتھ نہ دے سکے،مستشرقین نے مسلمانوں کے علم کا متعصبانہ اور معاندانہ مطالعہ کرتے ہوئے تاریخ سے مرچ مصالحہ تلاش کیا اور قرآن و سنت سے دنیا کوبدظن کرنے کی تحریک شروع کی۔ اُنہوں نے اُنیسویں اور بیسویں صدی کو تراثِ اسلامی کے احیا کی صدیاں قرار دیا،جس میں مسلمانوں کو یورپ سے رابطہ کا موقع ملا اور پھر مسلمان علما نے ان کے اعتراضات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور گردوغبار چھٹنا شروع ہوگئے۔ اُنہوں نے مسلمانوں کے بہت بڑے علمی ذخیرہ کے تحفظ کو مستشرقین کی کوششوں کا مرہونِ منت قرا ردیتے ہوئے کہا کہ فرانس کی سوربون یونیورسٹی کی لائبریری میں مسلمانوں کی