کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 32
الاستواء معلوم والكيف مجهول والإيمان به واجب والسوٴال عنه بدعة“ کہ اللہ کی صفات و اسماء کو بغیر تاویل، تشبیہ، تعطیل کے اس طرح مانا جائے جس طرح اس کی شان کو لائق ہے اورجس طرح نصوص میں ان کاذکر ہوا ہے۔ اس کے بغیر اللہ کی صحیح معرفت ممکن نہیں ہے اور اس کے بغیر انسان فلاسفہ اور معتزلہ وغیرہ کی طرح سرگرداں ہی رہتا ہے جیسا کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے ’اللذات‘ میں لکھا ہے : ” ہم نے دانش گاہیں گھوم دیکھیں ،لیکن کہیں سے ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوئی۔ میں نے ایسے لوگوں کو حیران و سرگرداں یا ندامت کے ساتھ اپنے دانتوں میں اُنگلیاں دابے ہی دیکھا ہے۔ جب ہم رات کو لیٹتے ہیں، پھر دلائل کا معارضہ کرتے ہیں ،پھر یہ بات کہ اللہ ہے کہ نہیں؟ … انسان کیا کہہ سکتا ہے؟“ اُنہوں نے کہاکہ اللہ کی صفات اس کی ذات سے متعلق ہیں ،جب ذات کی کنہ اور حقیقت ہمارے علم سے ماورا ہے تو پھر صفات کی کنہ بھی ہمارے علم سے ماورا ہے، اہل السنة کے دستور سے ہٹ کر وحدة الوجود اور وحدة الشھود جیسے نظریے ایمان باللھ اور توحید کے منافی ہیں، توحید کے لئے اس کی ضد ’شرک‘ کو سمجھنا اور اس سے بیزار ی کا اعلان کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد اُنہوں نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اشاعرہ اور ماتریدیہ کوبھی اہل سنت سے خارج قرار دیا، کیونکہ وہ بھی بعض صفاتِ الٰہیہ میں تاویل کرتے ہیں۔ ٭ اس خطاب کے بعد سیروتفریح کے لئے تمام شرکا کو لاہور کے گلشن اقبال پارک میں لے جایا گیا۔ یہاں کھلی فضا میں فاضل شرکا کے مابین مختلف علمی پروگرام منعقد کئے گئے۔ عشاء کی نماز پر سب حضرات اپنی رہائش گاہ جامعہ لاہور الاسلامیہ میں واپس لوٹے۔ چوتھادن منگل: 26/ جولائی 2005ء ٭ تلاوتِ کلام کے بعدپروفیسرعبدالجبار شاکرڈائریکٹر ’بیت الحکمت‘ نے ’عالم اسلام کی موجودہ علمی صورتِ حال پر ایک نظر‘کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مسلمانوں کی علمی تحریک کے ارتقا، اس کی نمایاں خصوصیات، تعلیم کے ذرائع اور اس سلسلہ میں سرزد ہونے والی غلطیوں کا جائزہ لیا۔