کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 31
فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے عقیدہ اور عمل میں أهل السنة والجماعةکے درج ذیل اُصول بیان کئے: (1) صرف وحی الٰہی (کتاب و سنت) کو عقیدہ اور دین کی اصل بنیاد اور عقل، فلسفہ، الہام، قیاس اور رائے کو وحی کا تابع بنایا جائے، کیونکہ رائے اور فکرو عقل، ناقص ہیں، ان کے ساتھ آفات لگی ہیں، لہٰذا وہ حیاتِ انسان کے علاوہ انسان کے جبلی اور فطری تقاضوں کو سمجھنے میں تو کچھ رہنمائی دے سکتی ہیں،لیکن دین،انسان کے مبدا و معاد، نظامِ کائنات اور اس کے پیچھے کارفرما قوت کے بارے میں رہنمائی دینا عقل کے بس کی بات نہیں،وہاں رہنمائی کا قابل اعتماد ذریعہ صرف وحی ہے جو آفات سے بالاتر ہے۔ عقل کا کام صرف مرادِ الٰہی اور وحی کوسمجھنا ہے اور پھر وحی الٰہی میں متواتر اور آحاد کاکوئی فرق نہیں ہے، آحادسے جس طرح عمل ثابت ہوتا ہے، اسی طرح اس سے عقیدہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کشف و الہام بھی اہل السنة کے ہاں ناقابل اعتماد ہیں۔ ممکن ہے کوئی جذبہ یا شیطانی وہم قلب و ذہن پر راسخ ہوجائے اور الہام و کشف کا روپ دھار کر سامنے آجائے۔ اگر یہ چیزیں قرآن و سنت کے مطابق ہیں تو درست ورنہ قابل ردّ ہیں۔ (2) اُمت ِمسلمہ کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن و سنت کو اسی طرح سمجھا جائے، جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم کرام اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم نے سمجھا،کیونکہ وہ خیرالقرون کا دور تھا، ان کے سامنے وحی نازل ہوئی تھی اور ان کا تزکیہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ وہ عرب ہونے کے ناطے عربی زبان کی باریکیوں کو زیادہ سمجھتے تھے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے تھے۔ (3) قرآن و سنت کی نصوص کے درمیان معارضہ کرنے کی بجائے جمع بین النصوص کا طریقہ اختیار کیاجائے۔ قرآن و صحیح احادیث کے درمیان معارضہ کرنا اہل بدعت کاطریقہ ہے۔ (4) عقیدھ و عمل کا چوتھا اُصول اُنہوں نے ایمان باللہ اور توحید کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ توحید ِربوبیت تو وجدانی اور فطری ہے ،لیکن اللہ کے اسماء و صفات کیا ہیں؟ وہ کن اعمال سے ناراض اور کن سے خوش ہوتا ہے؟یہ چیز عقل کی بجائے صرف وحی سے ہی حاصل ہوسکتی ہے اور اُن پر ایمان رکھنا عقیدہ کی مضبوط اساس ہے اور اس کے لئے اہل سنت کا دستور ﴿لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ وَّهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے: