کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 29
انقلابی دور ہے جس میں انہوں نے ہندوستانیوں کا رخ کتاب و سنت کی طرف موڑ دیا۔ اس کے بعد اُنہوں نے شاہ محمد اسحق، رحمۃ اللہ علیہ سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ،حافظ عبدالمنان وزیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمد علی لکھوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدماتِ جلیلہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی سوانح حیات خصوصاً سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کو متعارف کروانے پر زور دیا اور ان شبہات کا ردّ کیا جو اس تحریک کے متعلق مخالفین کی طرف سے اُٹھائے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے سلفی دعوت کی کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے کتاب و سنت سے لاعلمی اور اپنے اسلاف کی تاریخ سے بے اعتنائی اور اس کے مشن سے ہٹ جانے کو ان کمزوریوں کا اہم سبب قرار دیا۔ اُنہوں نے کہاکہ اس سلفی تحریک کو موجودہ گندی سیاست میں ملوث کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارے مدارس سے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ و ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی یاد تازہ کرنے والے محدث، مدرس اور مفتی پیدا ہونے کی بجائے سیاستدان پیدا ہورہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ مسائل میں اختلاف کا ہونااُمت میں انتشار کا باعث نہیں بلکہ اختلاف کی بنیاد پرتفرداور تعصب کا رویہ انتشار کا اصل سبب ہے۔ یہاں اُنہوں نے دعوتِ سلفی کے احیا میں اپنے اور اپنے ساتھیوں مولانا عبد السلام کیلانی اور حافظ عبدالرحمن مدنی کے کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے 35 برس قبل ماہنامہ محدث کے آغاز کی تفصیلات پر بھی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ اس مجلہ کا نام میرے آبائی گاؤں ’سرہالی‘ میں مولانا عبد السلام کیلانی کی تجویز پر ’محدث‘ رکھا گیا، پھر اُنہوں نے محدث کی 35 سالہ جدوجہد کا مختصر تذکرہ کرتے ہوئے ان دینی اداروں کے قیام اور بقا کے لئے اپنے ساتھی حافظ عبد الرحمن مدنی (مدیر الجامعہ) کی خدمات کو سراہا۔ آپ کے خطاب کے دوران سلفی تحریک پر جنوری 1971ء کے شمارہ ’محدث‘ میں شائع ہونے والے ایک نادر مقالہ کو بھی تقسیم کیا گیا۔ ٭ مذاکرہ کے اختتام کے بعد مولانا مفتی عبدالحنان زاہد (مفتی جامعہ سلفیہ فیصل آباد) نے ’مکالمہ کے آداب‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں ایک داعی کیلئے مکالمہ کی ضرورت و اہمیت ، اس کے تقاضے اور شرائط کا تذکرہ کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ مکالمہ کا مقصد علمی تفوق اور دوسرے کو نیچا دکھانا نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی