کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 28
اس کارِخیر میں مصروف افراد کو معلومات فراہم کرنے میں ہر ممکن تعاون پر زور دیا، کیونکہ اسلاف کی شاندار روایات کو سامنے رکھ کر ہی ہم مستقبل کی صحیح منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔ ٭ مدیر الجامعہ حافظ عبدالرحمن مدنی نے زیر بحث موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں حدیث کے عدمِ فروغ کی وجہ سے بہت سی بدعات کو سنت کے طور پر اختیار کرلیا گیا اورمجتہد في المذہب کے طور پر جمع شدہ اَقوال پر تقلید ِجامد اختیار کرلی گئی تو سلفيّت کی اس تحریک نے صدیوں سے رائج ان بدعات کا رد کیا اور سب سے پہلے ”فردّوه الىٰ الله والرسول“ کے رویہ کا احیا کیا جو صدیوں سے تقلید کی دبیز تہہ تلے دب چکا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ بدعات کے ردّ اور فقہی جمود کو توڑنے میں شاہ ولی اللہ اور ان کے ابناءِ اربعہ کی فروغِ حدیث کی تحریک نے اہم کردار ادا کیا اور پھر ولی اللھ مسند کے جانشین سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا 50 سالہ عرصہ اسی تحریک کو پروان چڑھانے میں صرف ہوا، جن کی درس گاہ دارالعلوم دیوبند سے 25 سال پہلے دہلی میں 1842ء میں قائم ہوچکی تھی۔ لیکن فقہی جمود اور کتاب وسنت کومروّجہ فقہ کے مطابق ڈھالنے کا رویہ بھی اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور نہایت ذہین دماغ اس لاحاصل کوشش میں صرف ہوتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مخلص اکابر دیوبند نے اپنے اس رویہ کو ضیاعِ حیات کے مترادف قرا ردیا، جیسا کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ مشہورہے جو مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔ آخر میں اُنہوں نے اس علمی اور فکری تحریک کی چند کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ اہل حدیث چند اختلافی مسائل کا نام نہیں بلکہ اس رویہ اور فکر کا نام ہے کہ سلف اور فقہا کے اجتہادات سے استفادہ کرتے ہوئے براہ راست کتاب و سنت سے اختلافی مسائل اور جدید چیلنجز کا حل تلاش کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سلفی کا معنی یہ نہیں کہ وہ بس ماضی سے چمٹ جائے بلکہ حقیقی سلفی وہ ہے جو اکابر کی اقدار کو آگے بڑھائے۔ ٭ اس کے بعد جامعہ لاہور الاسلامیہ کے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی نے تحریک اہلحدیث کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے شاھ ولی اللھ کو ہندوستان میں اس تحریک کا محرکِ اوّل قرار دیا۔ اُنہوں نے شاہ صاحب کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کے پہلے دو ادوار میں اُنہیں اہلحدیث تحریک کا بانی کہنا مشکل ہے۔ ہاں تیسرا دور ان کی زندگی کا