کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 24
انحرافات کوجو دراصل خوارج، جہمیہ اور معتزلہ کا نیا روپ ہیں ، سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ اُنہوں نے فرقہ غامدیہ کے گمراہ کن نظریات ،مثلاً افغانستان و عراق پر امریکی جارحیت کو جائز اور اسامہ اور ملا عمر کو جارحیت کا مجرم قرار دینا، مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح جہاد اور نزولِ عیسیٰ کا انکار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر موسیقی اور ناچ گانا سننے کا الزام عائد کرنا، تصویر اور مجسمہ سازی، ویلنٹائن ڈے اور بسنت جیسے مغربی اور ہندوانہ رسوم و رواج کو جائز سمجھنا اور مردوں کے لئے عورت کی امامت کے جواز کے فتویٰ کو اُمت کے اجتماعی رویہ سے انحراف قرا ردیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ دراصل پرویزمشرف کے پرفریب ایجنڈے :’روشن خیال اور اعتدال پسند اسلام‘ کو آگے بڑھانے کی منظم کوشش ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مولانا امین احسن اصلاحی نے محدثین کے اُصولوں کو من مانا مفہوم پہنا کر انکارِ حدیث کے جو دروازے کھولے اور خود ساختہ اُصول وضع کئے، ان سے فائدہ اٹھا کر اس اعتزالی فرقہ نے اسلام کا حلیہ بگاڑنے کا سلسلہ شروع کر رکھاہے ۔ اُنہوں نے یونیورسٹیوں کے اندر پروان چڑھنے والے اس رویہ کہ ”صرف قرآن سے دلیل پیش کرو“ کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے دلائل سے ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر طرزِعمل شریعت ہے، اِلا کہ آپ خود واضح کردیں کہ یہ میرا ذاتی فعل ہے، مثلاً رسول اللھ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیوندکاری سے منع کرنا اور گوہ کا گوشت نہ کھانا۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ حدیث و سنت ہم معنی ہیں اور ان کے درمیان فرق صرف اعتباری ہے، لہٰذا سنت سے صرف تواتر ِعملی (جو اُمت میں عام رائج ہوجائے) مراد لینا غلط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دفعہ کسی کام کو کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ بات اسلامی شریعت کا ضروری حصہ ہے۔ اب اس بنیاد پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت اُمت میں رائج نہیں ہوسکی، اسے حدیث قرار دے کر سرے سے اس کا انکار کردینا کہاں کا انصاف ہے ؟ اُنہوں نے کہا کہ یہ انتہائی بددیانتی اور دھوکہ ہے کہ ایک اصطلاح کے واضعین نے اس کا جومفہوم متعین کیا ہے، اس سے انحراف کرکے اسے اپنی مرضی کا مفہوم پہنا دیا جائے۔ شیعہ جو اپنے ائمہ کے اجتہاد کو معصوم قرار دیتے ہیں، اس کا ردّ کرتے ہوئے اُنہوں نے واضح کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کا اجتہاد بھی معصوم نہیں ہے اور معصوم ہونے کابھی