کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 23
اس کے بعد اُنہوں نے اس تفرق کے اخلاقی، دینی اور سیاسی اَسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے بلاتحقیق ہر کسی کی بات پر یقین کرنے اور اس پر فوری ردعمل کے اظہار کو اس تفرق کا اہم سبب قرار دیا اور کہاکہ آج مغربی میڈیا مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے یہی حربہ استعمال کررہا ہے۔ نیز اُنہوں نے سورۂ حجرات کی روشنی میں تمسخر ، بدگمانی، غیبت وغیرہ کو تفرق کے اَخلاقی اسباب اور قرآن و سنت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے منہج سے دستبرداری کو اس کا اہم دینی سبب قرار دیتے ہوئے اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ اتباعِ نفس سے دست کش ہوکر ہر کام کی بنیاد تقویٰ اور خدا خوفی پر رکھی جائے اور الحب للہ والبغض في اللہ کے اُصول پر عمل کیا جائے۔ ٭ پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی نے ’منکرین سنت کے شبہات اور ان کا ردّ‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے سنت اور حدیث کی لغوی،اصطلاحی تعریف اور ان کا باہمی تعلق بیان کیا اور مختلف حوالوں سے واضح کیا کہ محدثین کے نزدیک ’حدیث و سنت‘ ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے عقلی اور نقلی دلائل سے سنت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے واضح کیاکہ سنت کے بغیر قرآن کو صحیح سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ناممکن ہے اور اس کے بعد متعدد ایسی قرآنی آیات پیش کیں جنہیں حدیث کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے انکارِ حدیث کی تاریخ کا اختصار سے ذکر کرتے ہوئے منکرین حدیث کے کم وبیش 15 شبہات کا ذکر کرنے کے بعد تفصیل سے ان کا ردّ پیش کیااور ثابت کیا کہ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت روزِ قیامت تک فرض ہے، کیونکہ آپ کی نبوت عالمگیر ہے ،نیز حدیث کو ظنی قرار دینا محض دھوکہ اور سازش ہے اور آخر میں دلائل سے ثابت کیا کہ بیشتر صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس حدیث کے صحیفے لکھے ہوئے موجود تھے، لہٰذا مستشرقین اور منکرین حدیث کا یہ اعتراض باطل ہے کہ حدیث دوسری اور تیسری صدی ہجری میں لکھی گئی۔ ٭ حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ نے ’فکر ِغامدی اور اس کے خطرات‘ کے موضوع پر نہایت پرمغز لیکچر ارشاد فرمایا۔ اُنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول”ہم جاہلیت کو جانے بغیر اسلام کو نہیں جان سکتے!“سے استدلال کرتے ہوئے دورِ حاضر کے فتنوں اور