کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 22
مولانا اثری نے ”ضعیف اور موضوع احادیث کے خطرات اور فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کا حکم“ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اُمت ِمسلمہ میں اختلاف کا بڑا سبب ضعیف وموضوع روایات کے چلن اور ان پر اعتماد کو قرار دیاکہ جہاں فضائل تو درکنار عقیدہ کے مسائل کو بھی ضعیف اور موضوع روایات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اُنہوں نے ضعیف حدیث پر عمل کے سلسلہ میں علما کے تین اَقوال کا تذکرہ کرتے ہوئے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ ضعیف اور موضوع روایت عقیدہ، عبادات و معاملات تو کجا، فضائل اعمال میں بھی ناقابل قبول ہے اور یہی موقف ابن سید الناس، یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام مسلم، ابن حبان، ابن حزم ، ابن العربی اور امام شوکانی رحمہم اللہ کا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جب عام معاملہ میں عادل گواہ شرط ہے اور فاسق کی بات قابل قبول نہیں تو پھر دین کے معاملہ میں یہ احتیاط کیوں نہ ملحوظ رکھی جائے۔اُنہوں نے کہا کہ بعض ایسی روایات کو بھی حدیث بنا کر پیش کیا گیا ہے جو جھوٹے راویوں سے بھی ثابت نہیں اور ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ شاید ان کتابوں میں ہوں جو سقوطِ بغداد میں دریا برد ہوگئی ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر اس احتمال کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دین دریا برد ہوگیا اور اس کے بعد دین کی حفاظت کا دعویٰ بھی باطل ہوکر رہ جائے گا۔ نیز اُنہوں نے ضعیف ٭ ضعیف= ضعیف کے اُصول کوغلط قرا ردیا اور کہا کہ محدثین کا اُصول یہ ہے کہ روایت کے تمام طرق کو جمع کرکے اس کو پایہٴ ثبوت پرلایا جائے۔ دوسرا دن اتوار: 24 /جولائی 2005ء ٭ تلاوتِ کلام پاک کے بعد صبح 8 بجے ڈاکٹر حافظ محمد انور نے ’فرقہ پرستی ؛ اسباب اور اس کا حل‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے قرآن و سنت کے دلائل سے تفرد اور فرقہ پرستی کو اُمت ِمسلمہ کے لئے زہر قاتل اور ایک ناسور قرار دیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ جس طرح دورِ جاہلیت کے عرب سیاسی اور معاشرتی خلفشار کاشکار ہونے کی وجہ سے غیروں کے محکوم ہوگئے تھے، اسی طرح آج اُمت ِمسلمہ کی سیاسی و حدت پارہ پارہ اورتفرقہ کا شکار ہے۔ حکمران طبقہ کافروں کاحلیف اور عوام الناس دوسری طرف کھڑے ہیں اور مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے۔