کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 21
خصوصیات کا تذکرہ کیا۔ خطاب میں آپ نے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو ذکر کیا کہ ”اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، آپ کے حالات اور آپ کی احادیث کو اُمت میں سے سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے قرآن وسنت کی معرفت اور ان کے ظاہر و باطن کی پہچان، ان سے محبت اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کا حق ادا کردیا۔“ اور بقول امام اللالکائی : رحمۃ اللہ علیہ ”اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے علم و استدلال کا مرکز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہے، جو آپ کی احادیث کی اتباع کی جستجو کرتے ہیں اور یہی لوگ فرقہ ناجیہ منصورہ ہیں۔ “ اور بقول شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ :”فرقہ ناجیہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو عقیدہ و عمل میں کتاب وسنت نیز صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے منہج پر کاربند ہیں۔“ اس کے بعد اُنہوں نے عظیم ائمہ حدیث و فقہا کے اَقوال کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ ان صفات کے حامل اہل السنة والجماعت اور اہل الحدیث ہیں۔ مثلاً علی رحمۃ اللہ علیہ بن مدینی نے فرمایا کہ اس طائفہ سے مراد ’اصحابُ الحدیث‘ ہیں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ”إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم“ ”اگر اس سے مراد اہل الحدیث نہیں ہیں تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ اس سے مراد کون ہیں؟“ اُنہوں نے غنية الطالبين کے حوالہ سے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ذکر کیا : وأما الفرقة الناجية فهي أهل السنة والجماعة،وأهل السنة لا إسم له إلا إسم واحد وهو أصحاب الحديث ”نجات یافتہ گروہ اہل السنة والجماعہ ہی ہے۔ اور اہل سنت کا کوئی نام نہیں سوائے اصحاب الحدیث کے۔“ اس کے علاوہ اُنہوں نے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام اللالکائی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ متعدد ائمہ رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال کا تذکرہ کیا جنہوں نے الطائفة المنصورة کا مصداق اہل السنہ والجماعة اور اہل الحدیث کو قرار دیا ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے بتایا کہ اس سے مراد کوئی خاص فرقہ نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ہیں جو مذکورہ صفات کے حامل ہیں۔ ٭ اس دن کا دوسرا خطاب مولانا ارشاد الحق اثری (مدیر ادارہ علوم اثریہ، فیصل آباد)کا تھا۔