کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 11
متحرک کردار ادا کرنا ہوگا، تب ہی اسلا م کو درپیش چیلنجز کا صحیح طور پر سامنا کیا جاسکتا ہے۔
٭ تحریک حرمت ِقرآن پاکستان کے سربراہ انجینئر سلیم اللہ خان نے کشمیر میں اپنی عزت کا دفاع کرنے والی عورت اور غلیل سے اپنا دفاع کرنے والے فلسطینی کو دہشت گرد قرار دینا اور اُنہیں بموں سے اُڑانے والوں کو امن پسند قرار دینے کو مغرب کا دوہرا معیار قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ﴿حَرِّضِ الْمُوٴْمِنِيْنَ عَلَى الْقِتَالِ﴾ (الانفال:65)کے تحت آج جہاد و قتال ہی وقت کا اہم تقاضا ہے، غزوِ فکری پر اصرار مغربی میڈیا کی پراپیگنڈہ مہم کا نتیجہ ہے۔
اُنہوں نے مغربی میڈیا کا کردار واضح کرتے ہوئے کہا کہ اگر مغرب کی بلی مرجائے تو میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے لیکن ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت ان کے نزدیک انسانی حقوق میں شامل نہیں ہے۔اُنہوں نے کہا کہ مدارس کو دہشت گردی کے ساتھ وابستہ کرنا مضحکہ خیز ہے، کیونکہ حالیہ واقعات کے ملزموں میں کوئی بھی مدارس کا پڑھا ہوا نہیں ہے۔
٭ آخر میں ڈاکٹر راشد رندھاوا کو حرفِ نصیحت اور دعا کے لئے دعوت دی گئی۔ اُنہوں نے پروپیگنڈہ کے اس دور میں قرآنِ کریم کی روشنی میں تین رہنما اُصولوں کا تذکرہ کیا :
(1) ﴿إِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا﴾ (آلِ عمران:120) یعنی اگر مسلمان اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور اپنی جدوجہد کے نتائج کے لئے صبر وتحمل سے کام لیں تو آخرکار غیرمسلموں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(2) دنیا کے کافر آپس میں دوست لیکن قرآن کی رو سے مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ لہٰذا ہمیں انہیں اپنا دشمن ہی سمجھنا چاہیے۔
(3) ﴿وَمَا أصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيْكُمْ﴾ (الشوریٰ:30) کہ ہمارے برے اعمال ہی ہماری ذلت کا سبب ہیں، لہٰذا اگر ہم اللہ کی بغاوت ترک کر دیں تو ذلت کا یہ دور ٹل سکتا ہے۔
آخر میں ان کی رقت آمیز دُعا سے یہ مجلس اختتام پذیر ہوئی۔