کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 10
ہوئے علماے کرام کو پستی وپریشانی کا شکار ہونے کی بجائے ایک سپاہی کی طرح جاگتے ہوئے اپنے اس کام کو آگے بڑھانے پر زور دیا اور کہا کہ اس سلسلہ میں ہماری غفلت خوفناک صورت ِحال پیدا کرسکتی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ مدارس کے نصاب میں اصلاح کا مقصد اپنے نظریہ سے انحراف نہیں بلکہ مقصد اسے جدید چیلنجز سے وابستہ کرنا ہونا چاہئے۔
٭ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی نے اس سیمینار کے بعد ہونے والی ورکشاپ کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ اس ورکشاپ کا مقصد علماے کرام کو غزوِ فکری کے لیے تیار کرنا اور دورِحاضر کے چیلنجوں سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ اسلامی علوم سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
اُنہوں نے کہا کہ عالمی قوتیں دنیا بھر میں مصروفِ عمل جہادی قوتوں کو معرکہ آرائی سے روکنا چاہتی ہیں اور اس کام میں مسلم ممالک کے حکمران ان کے حاشیہ نشین کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان کو اپنے مذموم مقصد میں کامیابی ہوجاتی ہے تو مسلمانوں کو اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ برصغیر میں جنگ ِآزادی کے بعد کے سالوں میں ہوا۔ یہاں کے مسلمانوں نے پہلے زورِبازو سے انگریز سامرا ج کو برصغیر سے نکالنے کی کوشش کی لیکن جب وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے تو برسر اقتدار سامراج نے ان پر عرصہٴ حیات تنگ کردیا اور اُنہیں سنگین سزاؤں سے دوچار ہونا پڑا۔ ایسے حالات میں وقت کی مسلم قیادت نے علم وفکر کے میدان میں اسلام کا علم بلند کیا اور اپنی کوششوں کو مسلم قوم کی اصلاح اور تعمیر و ترقی کی طرف موڑ دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنگ ِآزادی کے بعد مسلمانوں میں کئی علمی وفکر ی تحریکیں شروع ہوئیں جن میں دینی مدار س میں دار العلوم دیوبند اور سرسید کی علمی تحریک وغیرہ نمایاں ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ہمیں مسلم ممالک سے سپر قوتوں کو بے دخل کرنے کی ہرممکن کوشش کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک میں فکری اور علمی اصلاح کے لئے بھی کام کو جاری رکھنا چاہئے۔ اسلام نے ’جہاد‘ کو صرف قتال اور معرکہ آرائی میں محدود کرنے کی بجائے غلبہ دین کیلئے بروئے کار لائی جانے والی تمام مساعی پر محیط قرار دیا ہے اور دینی قوتوں کو ہر میدان میں غلبہ دین کے لئے