کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 99
زار تضادات کی آخر اس کے سوا کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اگر مقالہ نگار کے نزدیک ”اللہ کی تبیین کے بعد، مزید کسی تبیین کے کوئی معنی نہیں ہیں تو پھر ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کی یہ ’تفسیر مطالب الفرقان‘، یہ ’قرآنی فیصلے‘، یہ ’قرآنی قوانین‘، یہ ’تبویب القرآن‘، یہ ’لغات القرآن‘، یہ’مفہوم القرآن‘ یہ سلسلہ ہائے ’معارف القرآن‘ وغیرہ کتب ، اگر قتل اوقات (Time Killing) کی خاطر بھی نہیں تھی، تو پھر پیٹ کے جہنم کو ایندھن فراہم کرنے کی پیشہ وارانہ ضرورتوں ہی کا تقاضا تھا؟ کہ ع روٹی تو کسی طور کما کھائے ہے مچھندر رہا مقالہ نگار کے سوال کا دوسرا جواب تو اسے ہم جناب پرویز صاحب ہی کے قلم سے پیش کئے دیتے ہیں : ”اُصول و قانون کی کوئی کتاب خواہ کس قد رمفصل و مبین کیوں نہ ہو، اس کے اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہونے اور اس کے حقائق و رموز کی علت و غایت معلوم کرنے کے لئے اس کی تفصیل و تبیین کی ضرورت لابد ہوتی ہے۔ اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إلَّابِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ(ابراہیم:رکوع 1)اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اُوس کی قوم کی زبان میں،تاکہ وہ ان سے(احکام الٰہیہ) بیان کریں۔ رسول کو اس کی قوم کا ہم زبان بھیجنا، اس پر دلالت کرتا ہے(اورخود قرآن نے اس کی وضاحت کردی ہے) کہ رسول کا فریضہ تبیین احکام بھی ہے، ورنہ اگر مقصودِ محض پیغام پہنچانا ہی ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے لئے کیا مشکل تھا کہ ایک عجمی شخص پر عربی میں قرآن نازل کردیتا اور اس طرح قرآن کو عربوں تک پہنچا دیتا۔ اس شکل میں مصرحہ صدر آیت میں رسول کی جگہ، رسالت یاکتاب کا لفظ ہونا چاہئے تھا یعنی ”جس قوم پر کوئی کتاب یا پیغام بھیجتے ہیں وہ اسی کی زبان میں بھیجتے ہیں۔“[1] خلاصہٴ بحث اور اس کا منطقی نتیجہ__اطاعت ِ رسول (1) اب تک کی اس طویل بحث سے یہ واضح ہے کہ ا) اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے باوجودیکھ وھ اس پر قادر مطلق تھا ،اپنی کتاب براہ راست لوگوں تک نہیں پہنچائی۔ ب) خالق کائنات نے اپنے بندوں تک اپنی کتابِ ہدایت پہنچانے کے لئے کسی فرشتے کوبھی