کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 98
کرکے سوال کرتے ہیں کہ ”اللہ نے فرما دیا کہ اپنی کتاب کی تبیین خود ہم نے کتاب کے اندر کردی ہے تو پھر کتاب سے باہر مزید کسی تبیین کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تبیین کے بعد مزید تبیین کے کیا معنی؟“[1] اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ سب سے پہلے منکرین حدیث کا اپنا طرزِ عمل اس کے منافی ہے یعنی جس کتاب کو وہ مفصّل، مُبِين، مُبَيّن اور تبيان کہتے ہیں، ’اللہ تعالیٰ کی تبيين کے بعد‘ خود تفسیریں لکھ رہے ہیں، کہا جاسکتا ہے کہ __ ”ہم تو قرآن کے ایک مقام کی تفسیر“ تصريف آيات کے ذریعہ دوسرے مقام سے کرتے ہیں، لیکن اگر ان کی تفاسیر کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک مقام اور دوسرے مقام کے درمیان جو خلیج رہ جاتی ہے، اسے پُر کرنے کے لئے وہ اپنے ذہن و اجتہاد سے کام لیتے ہیں یعنی ربط ِمضامین اور استنباط ِنتائج میں قرآنی آیات کو اپنے فہم اور سمجھ کے مطابق چلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باوجودیکھ برصغیر میں فتنہٴ انکار حدیث نے صدیوں بعد جب سے سرسید کے ہاتھوں دوسرا جنم لیا ، تب سے اب تک فہم قرآن یا تفسیر قرآن کے حوالہ سے جو کچھ بھی لکھا گیا وہ اس قدرباہم متضاد اور متخالف ہے کہ اس سے منکرین حدیث کے کئی فرقے بن گئے ہیں، حالانکہ سرسید نے ابتدا ، اس دعویٰ سے کی تھی کہ مسلمانوں میں ’قرآن سے باہر‘کی تعلیم سے جواختلافات پیدا ہوگئے ہیں، اُنہیں مٹانے کے لئے رجعت الی القرآن ضروری ہے، لیکن ہوا یہ ہے کہ جلد ہی یہ لوگ خود اختلاف سے بالاتر ہوتے ہوئے متحدو متفق ہوکر ایک جماعت بننے کی بجائے، متفرق فرقوں میں بٹ گئے ”جن میں قدرِ مشترک، صرف لفظ ’قرآن‘ ہے۔“ رہا مفہوم قرآن، تو وہ سب کا مختلف ہے۔ ہر فرقہ، بین، مفصل اور مبین قرآن کو کھینچ تان کرکے اپنے ذہنی تصورات پرمنطبق کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ کیا آج لاہور ہی میں بلاغ القرآن والوں اور طلوعِ اسلام والوں کی یہی کیفیت نہیں ہے؟ یہ تو رہی منکرین حدیث کے مختلف فرقوں کی کیفیت، خود پرویز صاحب کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اس میں مفصل ، مبین، مبین قرآن کی آیات کو فضاے دماغی میں اُٹھنے والی ہر لہر کے ساتھ اپنے تازہ ترین ذ ہنی مزعومات پر کھینچ تان کے ذریعہ منطبق کرتے رہے ہیں۔ ان کے وسیع خار