کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 97
تصوف اور لغت الغرض ہر چیز ہی ’مطابق قرآن‘ کرڈالنے کا اعلان کیا جاتا ہے :
”سچ پوچھئے تو پوری اسلامی تاریخ نیز فقہ، احادیث، تصوف اور لغت سب پرنظرثانی کی ضرورت ہے۔“[1]
آخر یہ تبدیلی کس ’مفہوم قرآن‘ کے مطابق؟
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پرویز صاحب نے اس قدر متضاد اور متناقض ’قرآنی مفاہیم‘ پیش کئے ہیں کہ اگر انہیں جمع کیاجائے تو اچھا خاصا ضخیم موسوعہ تیار ہوجائے۔ جس ’مفکر قرآن‘ کی ’قرآنی بصیرت‘ دو ٹکے کی جنتری کی طرح ہر سال بدل جایا کرتی ہو، اور ہر مقام پر، ایک نیا ’قرآنی مفہوم‘ پیش کر ڈالتی ہو، تو اُن کے ان متخالف و متضاد ’مفاہیم قرآن‘ میں سے کس مفہوم کو معیار قرار دے کر کتب ِاحادیث اور کتب تواریخ کا ازسرنو جائزہ لیا جائے؟ ایک منکر حدیث سے جب میری اس موضوع پر بحث ہوئی تو میں نے پرویز صاحب کی ابتدائی کتب اور بعد کی کتب سے جب درجن بھر متضاد ’مفاہیم قرآن‘ اس کے سامنے رکھے اور پھر اس سے پوچھا کہ__ ”آپ کس وقت کے اور کون سے ’مفہومِ قرآن‘ کو معیار قرار دے کر تاریخ، حدیث وغیرہ کو پرکھنا چاہتے ہیں؟ ایک ’مفہوم قرآن‘ کی رو سے جسے آپ صحیح قرار دیں گے، وہ پرویز صاحب ہی کے دوسرے مفہوم کے اعتبار سے غلط اور غیر قرآنی ہوگا“ میرے اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔”ہے کوئی جو اس سوال کا جواب دے“!!
پھر تضادات و تناقضات کے اس ذخیرہ میں__ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ__ مزید کوئی اضافہ نہ ہوسکا۔ اس لئے نہیں کہ متفرق قرآنی مفاہیم میں سے کسی ایک مفہوم پر وہ مطمئن ہوگئے ہوں اور انتشارِ فکر کی بجائے، اتحادِ فکر کی منزل پر پہنچ گئے ہوں، بلکہ اس لئے کہ موت نے اُنہیں سطح زمین سے بطن ارض میں منتقل کردیا ، ورنہ ہمیں یقین ہے کہ وہ ع
اگر اور جیتے ہوتے تویہی ’انتشار‘ ہوتا
مقالہ نگار کا ایک اور سوال
مقالہ نگار، آخر میں ایک سوال اٹھاتے ہیں لیکن اس سے پہلے اس کی تمہید میں فرماتے ہیں کہ قرآن تبيانالكل شيىٴ ہے۔ بيان للناس ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس کی وضاحت کردی ہے کہ كذلك يبين اللّٰه آيته للناس اور اس طرح کی چند اور آیات پیش