کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 96
قرآن سے نچوڑ کر پیش کرتے رہے ہیں وہ بغیر کسی ’قرآن‘ کے اہل مغرب کے ہاں پہلے ہی سے اپنایا جاچکا ہے۔ کبھی مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آیا کرتی تھی کہ ماضی میں کچھ لوگ اسلامی تعلیمات کی موجودگی میں کس طرح بیرونی افکار و نظریات کا شکار ہوئے تھے۔ منکرین حدیث اور خصوصاً پرویز صاحب کا لٹریچر پڑھ کر اب یہ بات بخوبی سمجھ چکا ہوں کہ بیرونی فکر و فلسفہ سے مرعوبانہ حد تک مسخر دل و دماغ کن حیلوں اور حربوں سے کام لے کر اپنے من پسند اصول واقداراور عادات و اطوار کو ’مطابق قرآن‘ قرار دے کر قبول کیا کرتے ہیں۔ کسی چیز کے ’مطابق قرآن‘ قرا رپانے یا نہ پانے کا فیصلہ ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ کی وہ ’قرآنی بصیرت‘ کیا کرتی تھی جو سوچ و بچار کے ہر جھونکے کے ساتھ مرغ بادنما کی طرح بدلتی رہتی تھی اور یوں ہر بدلتے ہوئے ’قرآنی مفہوم‘ کے ساتھ، ’مطابق قرآن‘ ہونے کا معیار بھی بدل جایا کرتا تھا جس کے نتیجہ میں ایک وقت کے ’قرآنی افکار‘ دوسرے وقت میں ’غیر قرآنی‘ قرار پاجاتے تھے، اور بعض اوقات تو یہ فرق کفر و اسلام کا فرق بن جاتا ہے یوں ’مطابقت قرآن‘ کے گرگٹ کی طرح بدلتے ہوئے معیار نے ’مفکر ِقرآن‘ کے لٹریچر میں تضادات وتناقضات کا وسیع و عریض خار زار پیدا کردیا۔ کو مطابق قرآن بنانے کا نعرہ یہ لاتعداد تناقضات و تضادات جنہیں شاید ضبط ِتحریر میں لانا، اس لئے مشکل ہے کہ ع ”سفینہ چاہئے، اس بحربیکراں کے لئے“ اُن کی پریشاں خیالی اور ذہنی ابتری پر دلالت کرتے ہیں لیکن وہ ژولیدہ فکری کی اس حد تک پہنچ کر رک نہیں گئے تھے، بلکہ انہوں نے ایک ایسا نعرہ لگایا جسے اگر اُمت ِمسلمہ قبول کرلے تو پورے کا پورا اسلامی سرمایہ (قرآنِ مجید سمیت) اس ژولیدہ فکری کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ دراصل ان کا مقصود و مطلوب بھی تھا۔ چنانچہ وہ اپنے اس نصب ُالعین کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے سب سے پہلے تاریخ کو ہدف بناتے ہیں اور فرماتے ہیں : ”قرآن کو صحیح طور پر سمجھنے کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری غلط تاریخ ہے“[1] لہٰذا اس غلط تاریخ کو صحیح کرنا بہت ضروری ہے اور اس کی صورت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اسے ’مطابق قرآن‘ بنایا جائے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں تاریخ کے علاوہ احادیث، فقہ،