کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 95
معیوب قرار دینا، عورت کوخانگی مستقر سے اُکھاڑ کر اسے مردانہ کارگاہوں کی طرف دھکیل دینا، خانگی زندگی میں عورت کے فطری وظائف سے اسے منحرف کرکے قاضی و جج بلکہ سربراہ مملکت تک کے مناصب پر براجمان کرنا وغیرہ وغیرہ، یہ سب کچھ قرآن میں سے نچوڑ ڈالنے کی دانشورانہ سرگرمیاں مغرب کی اندھی تقلید کے منہ بولتے کرشمے ہیں اور یہ سب کچھ کرتے ہی یہ لوگ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ قرآنِ کریم دورِ حاضر کی ضروریات کا ساتھ دے رہا ہے، لہٰذا اب اسے ’تاریک دور‘ کی کتاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
لیکن قرآنِ مجید کے یہ نادان دوست ہرگز یہ نہیں سمجھتے کہ ان کی یہ دماغ سوزی نہ قرآن کے لئے مفید ہے اور نہ ہی اسلام کے لئے۔ یہ سب کچھ عوامی سطح کے مسلمانوں کے لئے محض دل خوش کن ہو تو ہو، مگر قرآن اور اسلام کی تبلیغی روح کے لئے سخت مضر ہے، اہل نظر اور دانایانِ اسلام کے لئے یہ روش سخت شرمندگی کا باعث ہے،اس لئے کہ ان لوگوں کی ان مقفّٰی اور مسجع لفاظیوں کو دیکھ کر اہل یورپ یہ کہہ سکتے ہیں بلکہ شاید اپنے دلوں میں کہتے بھی ہوں (کیونکہ ایسی باتوں کا برملا اظہار ان کی سیاسی مصلحتوں کے منافی ہوتا ہے) کہ ”اب فلسفہ وسائنس کے یہ حقائق اور دورِ حاضر کا یہ معاشی نظام، نیز ترقی یافتہ اقوام کے یہ معاشرتی اطوار واقدار یہ سب کچھ تمہاری کتاب میں پہلے سے موجود ہے، اور بقول تمہارے اس کتاب میں واضح اشارات موجود ہیں اور تمہارے ہر طبقہ کے لوگ اس کتاب کو پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں۔ دن رات اس کتاب کو سینوں میں محفوظ کرنے اور تلاوت کرنے میں منہمک رہے ہیں، مگر یہ حقائق تمہارے کسی عالم کو نظر نہ آئے اور ہم لوگ بغیر تمہاری اس کتاب کو پڑھے ان حقائق کو پاگئے ہیں اور ان میں مہارت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ہم نے دن دگنی رات چوگنی ترقی بھی کی ہے۔ اس لئے آپ لوگوں کو اس کتاب کی ضرورت ہو تو ہو، ہمیں تو اس کی مطلق ضرورت نہیں۔ بلکہ آپ لوگوں کے لئے بھی یہ کتاب بیکار ہی ہے، اس لئے کہ آپ کو بھی جو ہمارے سائنسی حقائق، فلسفیانہ نظریات، اشتراکی نظامِ معیشت اور معاشرتی اصول و اقدار اب اس کتاب میں دکھائی دینے لگے ہیں تو وہ بالفعل ہمارے ان چیزوں کو اپنا لینے کے بعد ہی نظر آنے لگے ہیں۔“
یقینا ً ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ صاحب نے بڑی ہی زحمت کشی اور محنت ِشاقہ کے ساتھ پچاس سالہ ’قرآنی خدمات‘کی گولڈن جوبلی پائی مگر اس کا ماحصل اس کے سوا اور کیا ہے کہ جو کچھ وہ