کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 94
کرنا مقصود ہے۔ اور یہ استفادہ یہ کہہ کر کیا بھی گیا کہ جو فکر، جو خیال، جو قدر، جو اطوار ہم اپنا رہے ہیں وہ ’مطابق قرآن‘ ہے اور مغرب کی جس چیز کو ’مطابق قرآن‘ قرار دے کر قبول کرنے کی گنجائش نہ نکل سکی، اسے یہ کہہ کر اپنا لیا کہ ”یہ خلافِ قرآن نہیں ہے۔“ تہذیب ِجدید اور تمدنِ مغرب کی فکری اسیری اور ذہنی غلامی کی اس کیفیت کے ساتھ جب یہ لوگ قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو یورپ کی عینک لگا کر۔ ان کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ یورپ کے فلسفہ و فکر کو، سائنسی تحقیقات اور ایجادات کو اور معاشرتی طور طریقوں کو قرآن کی آیات سے ثابت کیا جائے اور اس طرح قرآن کا ایک ’نیاز اعجاز‘ دنیا کو دکھا دیا جائے کہ دیکھو! سائنس کے میدان میں آج یورپ جو کشف ِحقائق کررہا ہے اور ا س کی بنیاد پر جو ایجادات وہ سامنے لا رہا ہے، آج سے چودہ سو سال قبل قرآن مجید ان کی طرف اشارے کرچکا ہے اور فلاں آیت سے تو فلاں تحقیق ِجدید صاف طور پر نکل رہی ہے اور ان ان آیات سے تو آج کے معاشی نظاموں میں سے فلاں معاشی نظام تو بالکل قرآن کے اقتصادی نظام سے متماثل ہے اور ان آیات سے تو واضح طور پر ان بہت سی معاشرتی عادات واطوار کی تائید ہورہی ہے، جو آج کی ترقی یافتہ اقوام میں موجود ہیں اور معمولی سے چند اُمور کی اگر قرآن تائید نہیں کرتا تو اُنہیں یہ کہہ کر قبول کرلیا جاتا ہے کہ یہ خلافِ قرآن نہیں ہیں۔ قرآن کے نام لیوا یہ غلام فطرت حضرات اگرچہ اپنے آقایانِ مغرب سے سیاسی آزادی پاچکے ہیں لیکن ان کی فکری غلامی اور ذہنی اسیری سے چھٹکارا نہیں پاسکے وطن تو آزاد ہوچکا ہے، دماغ و دل ہے غلام اب بھی پئے ہوئے ہیں شرابِ غفلت، یہاں کے خواص و عوام اب بھی چنانچہ ان لوگوں نے ڈارون کا پورا نظریہٴ ارتقا قرآن کے مختلف مقامات کی متفرق آیات کے ٹکڑوں کو جوڑ جاڑ کر معنوی تحریف کے حربوں کے ساتھ قرآن ہی سے برآمد کرلیا ہے، دورِ حاضر کے چلتے ہوئے دو بڑے معاشی نظاموں میں سے کارل مارکس اور لینن کی اشتراکیت کو قرآن کے جعلی پرمٹ پر دَر آمد کرلیا ہے۔ تہذیب ِمغرب کی فاسد معاشرت کے جملہ اطوار واقدار کو بھی یہ کہہ کر اپنایا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ ’مطابق قرآن‘ ہے۔ مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترکِ حجاب، مردوزَن کی مطلق مساوات (بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر نظریہٴ افضلیت اُناث)، درونِ خانہ فرائض نسواں کی بجائے انہیں بیرونِ خانہ مشاغل میں منہمک کرنا، تعددِ ازواج کو