کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 93
صرف ’مطابق قرآن‘ ہونا ہی ہے تو پھر ہر وہ بات جو اس معیار اور اس کسوٹی پر پورا اُترتی ہے، وہ صحیح بھی ہوگی اور قابل قبول بھی۔ اور جو چیز اس پیمانے پر پوری نہیں اُترتی وہ غلط بھی ہوگی اور مردود بھی، خواہ کسی پیغمبر نے پیش کی ہو یا غیرنبی نے،مسلمان نے پیش کی ہو یا کافر نے، فرد بشر نے پیش کی ہو یا کسی بندر نما جانور نے۔ اس اعتبار سے خدا کا رسول اور عام آدمی، فرد کافر اور بندہٴ مومن، یہودی اور عیسائی، مجوسی اور ہندو، سکھ اور پارسی، سب کے سب ایک ہی سطح پر آجاتے ہیں۔ اس بظاہر خوش آئند معیار کا منطقی اور لازمی نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بلند مقام و منصب سے گرا کر عام فرد بشر کی سطح تک ہی نہیں، بلکہ مقامِ انسانیت سے بھی نیچے پھینک جائے۔
ع چہ بے خبرز مقام محمد عربی ست
اگر میری صاف گوئی ناگوارِ خاطر نہ ہو تو میں عرض کروں گا کہ ”قرآن اور صرف قرآن کے ساتھ مطابقت“ کا یہ بظاہر خوش آئند اُصول گھڑا ہی اس لئے گیا ہے کہ مغرب کی فکری غلامی میں مبتلا ہوکر جو بات بھی من کو بہا جائے، اسے یہ کہہ کر قبول کرلیا جائے کہ یہ ’مطابق قرآن‘ ہے۔ چنانچہ اس اُصول (مطابقت ِقرآن) سے دوہرا کام لیا گیا، اوّلاً یہ کہ احادیث رسول سے جان چھڑانے کے لئے ’ردّ و ترک‘ کی راہ یہ کہہ کر ہموار کی گئی کہ
”ہمارے نزدیک، دین کا معیار، فقط کتاب اللہ ہے۔ جو عقیدہ یا تصور اس کے مطابق ہے، وہ صحیح ہے اور جو اس کے مطابق نہیں وہ بلا تامل و تذبذب، غلط اور باطل ہے۔خواہ اس کی تائید میں ہزاروں حدیثیں بھی ایسی کیوں نہ پیش کردی جائیں جس کے راویوں میں جبرائیل ومیکائیکل تک کا نام بھی شامل کردیا گیا ہو۔“[1]
لیکن ’مطابقت ِقرآن‘ کے اُصول کی آڑ میں تو یہاں صرف ’ردّ و ترک‘ کی راہ ہی ہموار کی گئی ہے۔ مزید رد و ترک سے خواہ وہ فرموداتِ نبی ہی کا رد و ترک کیوں نہ ہو، بات نہیں بن سکتی۔ اس کے لئے تو ’اخذوقبول‘ کی راہ اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ اس کے لئے یہ راہ یوں ہموار کی گئی :
”ہرمعقول بات خواہ وہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ہو یا کارل مارکس کی، اگر قرآن کی کسوٹی پر سچی ثابت ہوتی ہے، تو اُسے قبول کرنے میں عار نہ ہونی چاہئے۔“[2]
یہاں، ابوحنیفہ کا نام تو محض وزن برائے بیت کے لئے ہے۔ اصل میں تو کارل مارکس اور دیگر یہودی دانشوروں، عیسائی سکالروں، ملحد فلاسفروں ، بے دین علماے مغرب سے استفادہ