کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 92
سے طلوعِ اسلام اس دو طرفہ قلمی مراسلت کو اپنے صفحات میں شائع کرنے کی جرأت نہ کرسکا، حالانکہ اس سے قبل ڈاکٹر عبد الودود صاحب وعدہ کرچکے تھے کہ ا س پوری دو طرفہ خط و کتابت کو شائع کیا جائے گا۔ نیز اس کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ ”جواب نہیں ملا“ کی رٹ لگانا جملہ منکرین حدیث کی عام روش ہے!! جہاں تک ماہنامہ ’محدث‘ یا دیگر دینی جرائد کا تعلق ہے تو ان میں بھی حدیث کے وحی ہونے کے بارے میں بیسیوں مضامین شائع کئے جاتے رہے ہیں جس پر محدث کے فتنہ انکارِ حدیث میں اس موضوع پر شائع ہونے والے 700 کے لگ بھگ مقالات کی فہرست شاہد ہے۔ بطورِ خاص اس عنوان پر کہ ’حدیث وحی ہے اور اس کا منکر کافر ہے‘ محدث میں اکتوبر 1995ء (ج27/ عدد1)میں دو طویل مقالات جناب غازی عزیر مبارکپوری کے قلم سے شائع ہو چکے ہیں۔ معیارِ صحت حدیث اور مقالہ نگار مقالہ نگار صاحب دیگر منکرین حدیث کی ہم نوائی میں حدیث ِرسول کی صحت کا واحد معیار بایں الفاظ پیش کرتے ہیں : ”جو حدیث قرآن کے مطابق ہو، اس کو سرآنکھوں پر جگہ دیتے ہیں۔“[1] ہم پوچھتے ہیں کہ کسی حدیث ، کسی قول، کسی بات یا کسی بھی معاملے کی صحت اور قبولیت کا واحد معیار اگراس کا ’مطابق قرآن‘ ہونا ہی ہے تو اس میں آخر حدیث ِرسول ہی کی کیا تخصیص ہے۔ زید کا خیال ہو یا بکر کا، جان مائیکل کا قول ہو یا رام داس کا، نتھا سنگھ کی بات ہو یا پرویز کی، الغرض کسی کا بھی کوئی خیال ، فکر یا قول ہو اگر وہ ’مطابق قرآن‘ ہے تو صحیح، درست اور قابل قبول ہے۔ اس میں پھر فرمانِ نبی ہی کی تخصیص کیوں؟ اور کس لئے؟ کیا اگر ابوجہل یا ابولہب کی کوئی بات ’مطابق قرآن‘ ہو تو آپ اسے یہ کہہ کر رد کردیں گے کہ یہ کافروں کی بات ہے؟ ابوجہل اور ابولہب تو خیر انسان ہی تھے اگر کوئی (بندر جیسا) جانور( بھی ایسی گفتگو کرے جو ’مطابق قرآن‘ ہو تو کیا آپ صرف اس لئے ردّ کردیں گے کہ یہ الفاظ ایک جانور کے منہ سے نکلے ہیں؟ ظاہر ہے کہ جب آپ کے نزدیک صحت کی کسوٹی اور قبولیت کا معیار صرف اور