کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 91
إنا للّٰه وإنا إليه راجعون بہرحال، اس سے اگلے صفحہ پر مقالہ نگار، مزید فرماتے ہیں کہ ”لیکن جو اصل موضوع ہے اور جو سب ’منکرین حدیث‘ کا اصل الاصول اور عروة الوثقیٰ ہے کہ حدیث وحی نہیں ہے اور ”وحی صرف قرآن میں ہے“ اس موضوع پر کچھ تحریر کرنے سے ہمارے علماء کرام ہمیشہ بچتے رہے اور اجتناب کرتے رہے ہیں۔“[1] ”ہمارے علماے کرام، حدیث کو وحی ثابت کرنے کے لئے مضمون تحریر کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں، تاحال کسی رسالہ یا کتاب یا ’محدث‘ میں ایسا مضمون تحریر نہیں کیا گیا جس میں حدیث کو وحی خفی ثابت کیا گیا ہو، اس مضمون میں پھر اسی درخواست کا اعادھ کیا جاتا ہے کہ ہمارے علماے کرام ، حدیث کے وحی ہونے پر کوئی ایسا جامع و مبسوط مضمون تحریر فرمائیں کہ نام نہاد ’منکرین حدیث‘ کو اپنے موقف پر دوبارہ غور کرنے کا موقع فراہم ہو۔“[2] منکرین حدیث کے ’قرآنی فضائل اخلاق‘ میں سے ایک بینظیر وصف یہ ہے کہ اگر آپ ایک مسئلہ کو بیسیوں مرتبہ بھی وضاحت سے بیان کردیں تو بھی وہ یہی رٹ لگائے جائیں گے کہ” اب تک کسی نے اس مسئلہ پر روشنی نہیں ڈالی۔ نہ معلوم، علماے کرام اس مسئلہ کو واضح کرنے سے کیوں گریزاں ہیں۔“ اور پھر جو یاے حق بن کر بڑے ہی معصوم انداز میں درخواست کریں گے کہ ”کوئی جامع و مبسوط مضمون تحریر فرمایا جائے۔“ حیرت ہوتی ہے کہ کس قدر تجاہل عارفانہ سے کام لے کر یہ کہا گیا ہے کہ ”کسی رسالہ یا کتاب میں وحی خفی کے متعلق دلائل نہیں دیے گئے۔“ حقیقت یہ ہے کہ خدا پرستی کا مسلک چھوڑ کر، ہوا پرستی اختیار کرنے والے خود غرض لوگوں کو کہیں بھی کوئی ایسی چیزنہیں ملا کرتی جو ان کے فکرو مزاج کے خلاف ہو۔ مقالہ نگار، اگر واقعی اس مسئلہ کی کھوج کرید میں مخلص ہوتے تو ان کی رسائی اس قلمی مناظرے تک ضرور ہوجاتی جو طلوعِ اسلام کی فکر سے وابستہ ایک نمایاں فرد ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مولانا مودودی کے درمیان واقع ہوا تھا اور جس کی پوری روداد ترجمان القرآن ستمبر 1961ء میں اور پھر بعد ازاں ’سنت کی آئینی حیثیت‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئی تھی۔ اس قلمی مناظرہ میں منکرین حدیث کے جملہ دلائل کا (بالخصوص وحی خفی پر اعتراضات کا) ایسا مسکت اور اطمینان بخش اور ایمان افروز جواب دیا گیا تھا (اور ہے) جو بہت سی بھٹکتی ہوئی شخصیتوں کے لئے باعث ِہدایت ثابت ہوا تھا (اور ہے) یہی وجہ ہے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے پرزور استدلال کی اثر آفرینی سے اپنے قارئین کو بچائے رکھنے کی غرض