کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 90
ہیں۔ آخر یہ واضح تو کیا جائے کہ علماے کرام کے تصورِ ناسخ و منسوخ میں اور خود ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کے ’عبوری دور کے احکام‘ کے تصور میں کیا جوہری فرق ہے کہ اگر اس کو ایک نام سے موسوم کیا جائے تو ناقابل قبول قرارپائے اور دوسرے نام سے پیش کیا جائے تو قابل قبول؟ کیا یہ محض ایک لفظی نزاع نہیں ہے؟ جس کی آڑ میں ’مفکر ِقرآن‘ صاحب نے، صرف اور صرف علماے امت کی تحقیر و توہین اور ان کی تضلیل و تذلیل کے لئے عقلی کشتی اور ذہنی دنگل کا اکھاڑا عمر بھر جمائے رکھا۔ اور پھر مقالہ نگار نے اپنی جذباتی ترنگ میں جس میں قدرے طنز کی تلخی بھی موجود ہے، فرمایا کہ __ ”لیکن اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ کون سی آیت، کس آیت سے منسوخ اور کون سی آیت، کس آیت کی ناسخ ہے۔ یہ ناسخ و منسوخ آیات کی نشاندہی روایات کے ذریعہ، ہمارے مفسرین کرام نے کی ہیں۔“ اب کوئی شخص پلٹ کر یہی سوال خود آپ سے یا جن کے آپ مقلد ہیں اُن سے پوچھ بیٹھے تو نہ معلوم آپ کا جواب کیا ہوگا، کہ حضرت گرامی قدر! اللہ تعالیٰ نے تو ان آیات کے متعلق یہ نہیں بتایا کہ کون سی آیات ’عبوری دور کے احکام‘ سے متعلق ہیں اور کون سی آیات’نظامِ ربوبیت کے تکمیلی دور‘ سے وابستہ ہیں؟ کیا بیچاری یہ آیات ایسی ہی قسمت کی ماری ہوئی تھیں کہ چودہ صدیوں تک گوشہٴ خمول میں پڑی رہیں یہاں تک کہ بٹالہ کے ایک ’خالص عرب‘ علاقے میں ایک ’خالص عربی مفکر قرآن‘ پیدا ہوا، جس نے ’عجمی سازش‘ کے تحت قرآن کریم پر ’ملاوٴں‘ کے ڈالے ہوئے پردے چاک کئے تو ’عبوری دور کے احکام‘ سے متعلقہ آیات اُبھر کر سامنے آگئیں، تو ’مفکر قرآن‘ نے ’ انکشافِ حقیقت‘ کرتے ہوئے فرمایا: ”وراثت، قرضہ، لین دین، صدقہ و خیرات وغیرہ سے متعلق احکام اس عبوری دور سے متعلق ہیں جس میں سے معاشرہ گزر کر، انتہائی منزل تک پہنچتا ہے۔“[1] وحی خفی اور مقالہ نگار مقالہ نگار صاحب نے وحی خفی کے اہم مسئلہ پر اظہار خیال فرماتے ہوئے ایک مقام پر یہ لکھا ہے کہ ”وحی خفی کا عقیدہ ہمارے علماء کرام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے، صدرِ اول میں اس عقیدہ کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ تقریباً دو سو سال کے بعد یہ عقیدہ وضع کیا گیا۔“[2]