کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 89
اور کون سی آیت کس آیت کی ناسخ ہے، یہ ناسخ و منسوخ کی نشاندہی، روایات کے ذریعہ ہمارے مفسرین کرام نے کی ہے۔“[1]
مقالہ نگار نے یہاں جو کچھ فرمایا ہے وہ اصل حقیقت پر غور کئے بغیر ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کی اندھی تقلید میں مکھی پر مکھی مارنے کے مصداق ہے۔ اگر وہ الفاظ کے پیچوں میں اُلجھنے کی بجائے مسئلہ نسخ میں فنی اصطلاحات کے پردوں کو اٹھا کر عروسِ حقیقت کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتے تو اُنہیں معلوم ہوتا کہ علماء اُمت ہوں یا پرویز صاحب، قرآنی آیات میں موجود بظاہر تعارض کے دونوں قائل ہیں۔ دونوں فریقوں کے نزدیک قرآن کریم کی بعض آیات، متروک العمل ہیں۔ ایک فریق ایسی آیات کو یہ کہہ کر متروک العمل قرار دیتا ہے کہ ”یہ آیات منسوخ ہیں“ اور دوسرا فریق یہ کہہ کر کہ ”یہ احکام عبوری دور سے تعلق رکھتے ہیں جس میں سے معاشرہ گزر کر اگلی منزل پرپہنچ چکا ہے۔“ انفرادی ملکیت کے مسئلہ پر پرویز صاحب کے نقطہ نظر سے (نہ کہ علما کے نقطہ نظر سے) قرآنی آیات میں اختلاف و تعارض پایا جاتا ہے، وہ اگر ایک طرف قرآنِ کریم سے (آیت 2/219 کی روشنی میں)ذاتی اور نجی مال کی ملکیت کی نفی’ثابت‘ کرتے ہیں تو دوسری طرف (آیت 4/32 کی روشنی میں) مردوزن ہر دو کے حق میں شخصی ملکیت ِمال کا جواز بھی پیش کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں قرآنی آیات کے باہم متعارض ہونے کی توجیہ کی جائے تو علماء کرام کے نقطہ نظر سے (بشرطیکہ دونوں آیات سے ان کا استدلال بھی ،استدلالِ پرویز کے موافق ہو، تو) ناسخ و منسوخ کے اُصول پر ہوگی اور پرویز صاحب کے نقطہ نظر سے ”عبوری دور کے احکام“ کے اُصول پر ہوگی۔
اس صورتِ حال میں کیا یہ بات قابل تعجب اور موجب ِحیرت نہیں کہ ایک ہی حقیقت کو اگر علماے کرام، ناسخ و منسوخ کے حوالہ سے بیان کریں تو ’مفکر ِقرآن‘ صاحب اسے مضحکہ خیز قرار دیں، لیکن اگر اسی حقیقت کو وہ خود ’عبوری دور کے احکام‘ کے حوالہ سے بیان کریں، تو وہ مفسر قرآن کہلائیں، حالانکہ ناسخ و منسوخ کا لفظ نہ سہی، اس لفظ کے مادہ سے چند مشتقات، قرآن میں موجود ہیں، جبکہ ’عبوری دور کے احکام‘کا کسی درجہ میں بھی، قرآن میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ پھر پرویز صاحب خود تو عمر بھر ناسخ و منسوخ کے مسئلے پر زبانِ طعن دراز کرتے رہے لیکن ناسخ ومنسوخ کی حقیقت کو ’عبوری دور کے احکام‘ کے لیبل کے تحت خود تسلیم کرتے رہے