کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 86
مقالہ نگار اور مسئلہ شانِ نزول مقالہ نگار صاحب منکرین حدیث کی ہم نوائی میں شان نزول کی بنا پر تفسیر کرنے کے خلاف ہیں، چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ ”قرآن فہمی کی راہ میں شانِ نزول کو اس قدر اہمیت دینا ہی ہمارے نزدیک قرآن فہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔“[1] شان نزول کا مسئلہ منکرین حدیث کے لئے ہمیشہ سوہانِ روح بنا رہا ہے، وہ بڑی بلند آہنگی سے اس کا انکار بھی یہ کہتے ہوئے کرتے ہیں کہ شانِ نزول کی روایات بالکل ظنی اور غیر یقینی ہیں، لیکن اس کے باوجود جہاں ضرورت پڑتی ہے وہ خود اپنی طرف سے شانِ نزول گھڑ لینے میں بھی کوئی دریغ نہیں کرتے۔ اس کی بہت سی مثالیں اگرچہ موجود ہیں مگر مقالے کی تنگ دامنی کے باعث صرف ایک مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے جس میں ’مفکر قرآن‘ صاحب نے خود شانِ نزول گھڑا ہے، اس کے باوجود کہ وہ یہ اعلان بھی کیا کرتے تھے کہ ”خدا کی یہ عظیم کتاب اپنے مطالب کو واضح کرنے کے لئے نہ تو شانِ نزول کی محتاج ہے اور نہ کسی اور ترتیب کی ، یہ خود مُكتفی ہے اور اپنی وضاحت آپ کرتی چلی جاتی ہے۔“[2] سوال یہ ہے کہ اگر یہ کتاب ایسی ہی خود مكتفى ہے کہ ”اپنی وضاحت، آپ کرتی چلی جاتی ہے“ تو پھر پرویز صاحب کی یہ’ تفسیر مطالب الفرقان‘ یہ’مفہوم القرآن‘ یہ ’تبویب القرآن‘ یہ’قرآنی قوانین‘ یہ’قرآنی فیصلے‘ اور یہ ’سلسلہ ہائے معارف القرآن‘ کیا محض قتل اوقات(Time Killing)کے پیش نظر ہی منظر عام پر آئے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ زبان پر تو ’کتاب عظیم کے خود مکتفی‘ ہونے کے اعلانات ہوں لیکن دل میں یہ اعتقاد جما بیٹھا ہو کہ یہ کتاب کسی ’مفکر ِقرآن‘ کی تشریحات و توضیحات کی محتاج ہے۔ بہرحال’قرآن کے خود مکتفی‘ ہونے کے بلند بانگ دعاوی کے باوجود پرویز صاحب جن آیات کی تفسیر و توضیح کے لئے تسویل نفس کے بل بوتے پر ’شانِ نزول‘ گھڑنے کے لئے مجبور ہوئے ہیں، ان میں آیت ِنسخ بھی شامل ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ” ان اہل کتاب کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ جب خدا کی کتابیں پہلے سے موجود تھیں تو پھر ایک نئی کتاب (قرآن) کی ضرورت کیوں پڑ گئی ہو، نیز یہ بھی کہ اگر یہ کتاب خدا کی طرف سے ہے تو اس میں ایسے احکام کیوں ہیں جو خدا کی پہلی وحی (تورات) کے خلاف ہیں“[3]