کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 85
علیہ ہونے کے باوجود اس کے مفہوم میں اختلافات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پھر جب عمل کی طرف آمادہ ہوں گے تو یہ عمل اس معنی و مفہوم اور مراد و مدلول پرقائم ہوگا جو قرآنی متن سے کسی نے اخذ کیا ہوگا۔ غلام احمد پرویز کا عمل اس معنی و مفہوم پر ایستادہ ہوگا جو ان کی ’قرآنی بصیرت‘ نے قرآن سے نچوڑا ہوگا۔مرزا غلام احمد قادیانی کے عمل کی بنیاد اس مدلول و مراد پر ہوگی جو اُنہوں نے متن قرآن سے کشید کیا ہوگا، ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے حجت و سند وہی معنی ومفہوم ہوگا جو اس کے نزدیک ماخوذ من القرآن ہوگا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کی حجت اور سند کا منکر ہوگا۔ پرویز صاحب کا مفہوم خود اس کے لئے دلیل و حجت ہوگا اور وہ مرزاے قادیانی کی حجت و برہان اور جس معنی و مراد پر یہ حجت و برہان قائم ہوگی، اس کا انکار کریں گے۔ اور یہی طرزِ عمل موٴخر الذکر فرد کا پرویز صاحب کے بارے میں ہوگا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہر ایک کا قرآن سے اخذ کردہ مفہوم و مراد اور اس پر تعمیر ہونے والی دلیل و حجت خود اسی کے لئے ہی سند ہوگی اور ہر کوئی دوسرے کے مراد و مفہوم اور اس کی دلیل و برہان کا منکر ہوگا اور پھر ہر ایک کا قرآن سے نچوڑا ہوا مدلول و مفہوم ظنی اور غیر یقینی ہی ہوگا اور جو سند و حجت ہوگی، وہ بھی ظنی ہی ہوگی تو پھر سنت کے خلاف یہ واویلا اور یہ غوغا آرائی کیسی؟ لہٰذا اب اگر سنت کے معاملہ میں مبینہ اختلاف فی نفسہ حدیث و سنت کو قابل رد بنا دینے پر محکم دلیل بن سکتا ہے اور سرے سے سنت ہی کا کوئی مقام باقی نہیں رہنے دیتا تو پھر عملی دنیا میں ’قرآنی بصائر ومعارف‘ کے درمیان، متضاد اختلافات کا وجود بھی قرآن کو ناقابل سند و حجت بنانے کے لئے ایک محکم دلیل بن سکتا ہے اور عمل کے باب میں ’قرآنی معارف و حقائق‘ کا آپس میں تصادم قرآن کے لئے بھی دینی مقام باقی نہیں رہنے دے گا۔ یہاں منکرین حدیث کی ذہنیت کا یہ پہلو بھی لائق دید اور قابل داد ہے کہ وہ سنت کی بابت اختلافاتِ علما کا تو خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن خود ان کی صفوں میں (مختلف گروہوں کے درمیان) قرآن کی تعبیر و تفسیر میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں، ان کا نہ صر ف یہ کہ ذکر نہیں کرتے بلکہ اس عدمِ ذکر کے ساتھ ساتھ اُلٹا یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ قرآن ہی رافع اختلاف اور مزیل تنازعات ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی قرآن ان سب کے درمیان اختلافات ختم کرچکا ہے؟ اور یہ مختلف گروہ کسی ایک تعبیر قرآن پر متحد و متفق ہوچکے ہیں؟ کیا واقعی طلوعِ اسلام اور بلاغ القرآن والے ٹولے ، براساس قرآن، شیروشکر ہوچکے ہیں؟