کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 84
جب پرویز صاحب کے نزدیک بھی انسانی تعبیر قرآن سہو و خطا کا امکان رکھتی ہے اور وہ تعبیر و تفسیر وحی الٰہی کی طرح منزہ عن الخطا نہیں ہے تو پھر اس کے ظنی اور غیر یقینی ہونے میں کیا شک رہ جاتا ہے؟
الغرض، قرآن کے الفاظ تو بلا شبہ قطعی،حتمی اور یقینی ہیں لیکن ان کا مفہوم و مراد ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ظنی اور غیر یقینی ہے اور عملی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو اتباعِ قرآن اور پیروی کتاب اللہ کے لئے ہم الفاظِ قرآن سے کہیں زیادہ مفہومِ قرآن کے محتاج ہیں جو بہرحال ظنی ہی ہے۔ لہٰذا یہاں عملاً دین میں حجت اور سند وہ چیز (مفہوم آیاتِ قرآن) بن رہی ہے جو غیر یقینی اور ظنی ہی ہے۔ جب عملاً صورتِ حال یہ ہے تو پھر حدیث و سنت نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ بقول آپ کے ظنی اور غیر یقینی ہونے کی بنا پر حجت اور سند سے محروم ہوجائے؟ کیا منکرین حدیث یہ کہنا چاہتے ہیں کہ روایاتِ رسول اور احادیث ِنبی تو ظنی ہونے کی بنا پر مرد و د و مسترد ہیں لیکن پرویز صاحب کی قرآنی تعبیرات ظنی ہونے کے باوجود مقبول ومحمود ہیں؟
اختلافِ سنت کا پراپیگنڈہ
منکرین حدیث سنت کو ساقط الاعتبار قرار دینے کے لئے یہ غوغا آرائی بھی کیاکرتے ہیں کہ
”ان حضرات (علما) کے نزدیک قدرِ مشترک صرف لفظ ’سنت‘ ہے، اس کا مفہوم ہر ایک کے نزدیک الگ الگ ہے۔“[1]
اور اسے خوب نمک مرچ لگا کر پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے ”سنت کی تعریف و تعبیر میں علما کرام کے درمیان شدید اختلافات ہیں، ہر فرقہ کی سنت الگ الگ ہے اور پھر اس کی تعبیر بھی جدا جدا ہے، ایک فرقہ سنت کی جو تعبیر پیش کرتا ہے، دوسرا اسے تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن اس کے برعکس قرآن کے متن میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ہر مخالف و موافق کے نزدیک وہی متن قرآن متفق علیہ ہے جو مابین الدفتین موجود ہے،وغیرہ وغیرہ“
لیکن اگر قرآن کوئی جنتر منتر کی چیز نہیں ہے اور وہ کوئی ایسی کتاب بھی نہیں جس کا متفق علیہ مفہوم تعویذ بن کر پلائی جانے والی چیز ہو، بلکہ عمل کرنے کے لئے ایک دستور العمل ہے تو پھر منکرین حدیث کے اس مکروہ پراپیگنڈہ میں کیا وزن رہ جاتا ہے جبکہ متن قرآن کے متفق