کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 83
عقل کے خلاف ہے اور آیات کے مفہوم کو بھی غیر یقینی اور ظنی بنانا ہے۔“[1]
اس اقتباس میں پہلی بات تو یہ کھٹکتی ہے کہ مقالہ نگار نے سورة الفاتحہ کو قرآن سے خارج کردیا ہے اور آغازِ قرآن، سورة البقرہ کو اور اختتامِ قرآن سورة الناس کو قرار دیا ہے، نہ معلوم یہ کیوں؟ اب رہا قرآن کے یقینی اور روایات کے ظنی ہونے کا معاملہ تو یہاں اصل اور بنیادی چیز جو دریافت طلب ہے وہ یہ ہے کہ
” صرف الفاظِ قرآن ہی یقینی اور حتمی ہیں؟ یا ان الفاظ کا معنی ومفہوم بھی؟“
اگر آپ الفاظِ قرآن ہی کے حتمی اور یقینی ہونے کے قائل ہیں تو یہ امر تمام مسلمانوں میں (بلکہ غیر مسلموں میں بھی) متفق علیہ ہے، اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے لیکن اگر آپ الفاظِ قرآن کے معنی و مفہوم کو بھی حتمی اور یقینی سمجھتے ہیں تو آپ کا یہ نظریہ وہم و گمان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کوئی بڑے سے بڑامنکر ِحدیث حتیٰ کہ خود پرویز صاحب بھی اس کے مدعی نہیں ہوسکتے۔ اگر متن قرآن کا مفہوم و مدلول بھی حتمی اور یقینی ہوتا تو تفسیر قرآن کا قطعاً اختلاف نہ ہوتا۔ منکرین حدیث کے جملہ گروہوں میں خو اہ وہ ماضی کے احزاب ہوں یا دورِ حاضر کے ٹولے ہوں، یہ اختلاف موجود رہے ہیں (باوجودیکہ ہر ٹولہ تمسک بالقرآن ہی کو رافع اختلاف قرار دیتا رہا ہے) حتیٰ کہ عبادات و عقائد تک میں اور فروعی نہیں بلکہ اُصولی امور تک میں یہ افتراقات و تنازعات اب تک برقرار ہیں اور اِنہی کی بنیاد پر خود پرویز صاحب منکرین حدیث کے دوسرے گروہوں کو گمراہ،دشمن دین اور مُخْزي القرآن قرار دیتے رہے ہیں۔ پھر یہ تفسیری اختلافات مسلک ِانکارِ حدیث کے علمبردار مختلف دھڑوں ہی میں نہیں پائے جاتے، بلکہ ان کے کسی ایک ہی گروہ میں بھی وقتاً فوقتاً موجود رہے ہیں اور پرویز صاحب کا تو خیر سے پورا لٹریچر ہی ماشاء اللھ ان ہی اختلافات کی بنیاد پر تضادات و تناقضات سے اٹا پڑا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ ہی حتمی و یقینی ہیں، مگر ان کا معنی و مفہوم ہرگز ہرگز حتمی اور یقینی نہیں ہے، پرویز صاحب خود ایک مقام پر یہ لکھتے ہیں کہ
”قرآن تو وحی الٰہی ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں، لیکن میں اپنی قرآنی بصیرت کو کبھی وحی الٰہی قرار نہیں دیتا، اس لئے اس میں سہواور خطا دونوں کا امکان ہوتا ہے۔ بنابریں میں اس پر اصرار نہیں کرتا کہ جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ اس باب میں حرفِ آخر ہے اور وحی الٰہی کی طرح منزہ عن الخطاء“[2]