کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 82
اطلاع دہندھ پر ایمان لانا تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا مقالہ نگار اور ان کے ہم نوا منکرین حدیث نے ساری دنیا کو جاہل اور احمق سمجھ لیا ہے یا یہ ان کے مبلغ علم کا کرشمہ ہے جو ایسے مضحکہ خیز ’نوادرات‘ ان کے قلم سے صادر ہورہے ہیں۔ ایسی بات جیسی منکرین حدیث پیش کررہے ہیں، اگر کسی کے لئے کہنا سزاوار ہوتا تو یقینا وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہوسکتے تھے کیونکہ وہی قرآن کے اوّلین مخاطب تھے لیکن اُنہوں نے یہ بات صرف اور صرف اس لئے نہیں کہی کہ آپ کو نبی و رسول تسلیم کرلینے کے بعد وہ زبانِ رسول سے برآمد ہونے والے ہر لفظ کو کلمہ حق سمجھتے تھے اور یہ اعتقاد کہ آپ کی زبانِ مبارک سے نکلنے والی ہر بات امر حق اور مطابق مرضات ِالٰہی ہے۔ قرآنِ کریم اور فرمانِ رسول ہی کا پیداکردہ ہے۔ رہا آپ کا فرمان تو آپ نے خود اپنے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو جو کچھ لوگوں کی طرف سے غلط فہمی کی بنا پر فرموداتِ رسول کو لکھنا چھوڑ بیٹھے تھے، یہ فرمایا تھا کہ(اكتب فوالذي نفسي بيده لا يخرج منه إلا حق) ”تم لکھتے رہو، اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اس (منہ) سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔“ رہا قرآن تو وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إنْ هُوَ اِلَّا َوحْىٌ يُّوْحٰى﴾ ”وہ (رسول) اپنی نفسانی خواہشات کے تابع ہوکر نہیں بولتا بلکہ وہ تو سراسر وحی ہے جو اس پر کی جاتی ہے۔“ اس آیت کی تفسیر میں سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ قلم بند فرمایا ہے، وہ فی الواقع بیمار کی شفایابی اور پیاسے کی سیرابی کا نہایت موٴثر ذریعہ ہے اور منکرین حدیث کے شکوک و شبہات کا بہترین ازالہ ہے۔ لیکن یہ اقتباس چونکہ بہت ہی طویل ہے، اس لئے میں اس مقالہ میں اسے پیش کرنے کی گنجائش نہیں پاتا۔ طالبین ذوقِ تحقیق ، تفہیم القرآن، جلد پنجم، سورة النجم صفحہ 193 تا 195 کا مطالعہ خود فرما سکتے ہیں۔ قرآن یقینی، مگر روایات ظنی مقالہ نگار بھی ان منکرین حدیث کے ہم نوا ہیں جو قرآن کے یقینی اور روایات کے ظنی ہونے کی دھائی دیا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ”قرآنِ کریم از اوّل تا آخر سورة البقرة سے لے کر سورة الناس کے آخر تک یقینی ہے، اس کی جملہ آیات یقینی و حتمی ہیں جبکہ شانِ نزول اور روایات بالکل ظنی اور غیر یقینی ہیں۔ اس صورت میں آیات کی تفسیر کا مدار و انحصار روایات اور شانِ نزول پررکھنا بالکل غیر مناسب اور