کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 81
روایات ِ حدیث اور منکرین حدیث
رہا مقالہ نگار کا یہ فرمان کہ ”ہم احادیث پرایمان لانے کے مکلف نہیں ہیں۔“ تو اس کی وضاحت قدرے آگے چل کر وہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
”قرآنِ کریم پر ہمارا ایمان ہے اور اس پر ایمان لانے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے … لیکن اس کے برخلاف نہ حدیث پر ہمارا ایمان ہے، نہ اس پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے، نہ حدیث کے رواة پر ہمارا ایمان ہے، نہ ان پر ایمان لانے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے، نہ حدیث کی سند میں جو رجال ہیں، ان پر ہمارا ایمان ہے، نہ ان پر ایمان لانے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔“[1]
سبحان اللہ! کیا بلند مرتبہ ہے آپ لوگوں کا اور کیا اونچی شان ہے آپ حضرات کی! گویا قرآن براہ راست اللہ میاں کے ہاتھوں سے آپ کو ملا ہے ورنہ اگر سینکڑوں، ہزاروں اور کروڑوں افراد کے تواتر سے آپ تک قرآن پہنچا ہے تو ان کروڑوں راویوں کے توسط سے آپ تک قرآن پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کروڑوں افراد پر آپ کا ایمان ہوجائے اور ان سب پر ایمان لانے کا آپ کو حکم دیا گیا ہو۔ اور جب ایسا نہیں ہے تو یقینا اللہ تعالیٰ نے بلاواسطہ آپ کی آغوشِ مبارک میں قرآن ٹپکا دیا ہے اور پھر آج سے آپ ہر گز کسی خبر دینے والے کی خبر اور کسی شاہد کی شہادت کی طرف کان بھی نہ دھرئیے گا، ورنہ اس کامطلب یہ ہوگا کہ آپ اس خبررساں اور اس شاہد پر ایمان لارہے ہیں جس کا اللہ نے آپ کو حکم نہیں دیاہے اور یہ جو ہمیشہ سے دنیا بھر کی عدالتوں میں شاہدوں کے بیانات اور ان کی شہادتیں سنی اور قبول کی جاتی رہی ہیں، آپ جیسے نکتہ سنج حضرات کے نزدیک سارے قضاة کرام اور جج صاحبان ان شاہدوں پر ایمان ہی لایا کرتے ہیں حالانکہ ایسی ’غیر یقینی اور غیر ایمانی چیزوں‘ پر ایمان لانے کا اُنہیں حکم ہی نہیں دیا گیا۔ مزید آگے بڑھئے اور دیکھئے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین نے کسی مخبر کی خبر پر اگر اعتبار و اعتماد کیا تھا یاکسی گواہ کی گواہی کو قبول کیا تھا تو مقالہ نگار کی اس عجیب منطق کی رو سے رسولِ اللہ بھی اور خلفاے راشدین بھی مخبر و شاہد پر ایمان لانے والے ٹھہرتے ہیں اور یہ جو 29/ دسمبر 1955ء کو کسی نے ٹیلیفون پر پرویز صاحب کو یہ اطلاع دی کہ اسلم جیراجپوری فوت ہوگئے اور پرویز صاحب نے اس اطلاع کو قبول کیا اور بعد میں طلوعِ اسلام کا ایک پورا شمارہ ’اسلم جیراجپوری نمبر‘ کے طور پر شائع کیا تو اس خبر کو قبول کرنا