کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 80
قائل ہوں، ان کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے۔ اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نے اس منشا ہی کو فوت کردیا جس کی خاطر ذکر کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہ راست لوگوں تک پہنچا دینے کی بجائے اسے واسطہ تبلیغ بتایا گیا تھا۔ اگر وھ دوسری اور تیسری بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے (معاذ اللھ) یہ فضول حرکت کی کہ اپنا ’ذکر‘ ایک نبی کے ذریعہ بھیجا کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ذکر کے مطبوعہ شکل میں نازل ہوجانے کا ہوسکتا تھا۔ اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تودراصل یہ قرآن اور نبوتِ محمدی دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلک معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ ان لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ اس لئے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود قرآنِ مجید کے مقصد ِنزول کی تکمیل کے لئے نبی کی تشریح کو ناگزیر ٹھہرا رہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کررہا ہے کہ وہ ذکر کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرین حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہی ہے تو اس کے دو نتیجے کھلے ہوئے ہیں: پہلا یہ کہ نمونہٴ اتباع کی حیثیت سے، نبوتِ محمدی ختم ہوگئی اور ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اس طرح کا رہ گیا جیسا ہود، صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، مگر ان کا کوئی اسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں۔ یہ چیز ایک نئی نبوت کی ضرورت ، آپ سے آپ ثابت کردیتی ہے۔ صرف ایک بے وقوف آدمی ہی اس کے بعد ختم نبوت پراصرار کرسکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لئے ناکافی ہے، اسلئے قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں، مدعی سست کی حمایت میں گواہانِ چست کی بات ہرگز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت آپ سے آپ، خود قرآن کی رُو سے ثابت ہوجاتی ہے۔ قاتلهم اللّٰه اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِ حدیث کے ذریعے دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔“[1] الغرض، یہ آیت ذِکر بلا تبیین رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، تعلیم بلاعمل،کتاب بلا رسول اور قرآن بلا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نظریہ کی سخت مخالفت کرتی ہے۔اب اس کے بعد ایک نظر ان فروق و امتیازات پرڈال لیجئے جنہیں مقالہ نگار نے قرآن اور احادیث کے حوالہ سے بیان کیا ہے: