کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 78
تنہا کتاب خواہ وہ کتنی ہی عظیم الشان ہوتی، بہرحال وہ الفاظ ہی پر مشتمل ہوتی جبکہ عملاً جو کچھ مطلوب ہوتا ہے، وہ الفاظِ کتاب نہیں بلکہ معانی کتاب ہوتے ہیں، جن کے تعین میں لامحالہ (اگر کتاب کے ساتھ رسول نہ ہو تو) لوگوں میں سے ہر فرد دوسرے سے مختلف ہوگا اور یہ اختلافِ معانی ٴکتاب لوگوں کو نہ تو بنیانِ مرصوص ہی بنا سکے گا نہ ہی انہیں اقامت ِکتاب (یا غلبہ دین) کی منزل تک پہنچا سکے گا۔ مگر رسول کی موجودگی میں کتاب کا وہی مفہوم ’سرکاری فرمان‘ قرار پائے گا جو خود رسول کا پیش کردہ ہو،کیونکہ وہ نہ صرف یہ کہ خدا کا مامور من اللہ نمائندہ ہے بلکہ اس کتاب کا شارح مجاز بھی ہے۔ لیکن کتاب کی ایسی توضیح و تشریح جو صرف بیان و کلام کی حد تک ہو، وہ تو خیر ایک فرشتہ بھی کرسکتا ہے لیکن جو تشریح و وضاحت عملی مظاہرہ (Practical Demonstration) کی محتاج ہو وہ کوئی فرشتہ اس لئے انجام نہیں دے سکتا کہ اس کی دنیا انسانی دنیا سے یکسر مختلف ہے اور انسان سے قطعی الگ اور جداگانہ مخلوق ہونے کی بنا پر وہ انسان کے لئے نمونہٴ پیروی نہیں بن سکتا۔ انسانوں کی دنیا میں تو کوئی انسان ہی اُن کے لئے اُسوہٴ حسنہ بن سکتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لئے کتاب کے ساتھ کسی فرشتہ کی بجائے انسان ہی کو رسول اور راہنما بنا کر بھیجا ہے۔ اسی بات کو جناب پرویز صاحب نے بھی بڑے اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ”اگر غوروفکر اور ہدایت و نجات کے لئے کتاب کی آیات ہی کافی ہوتیں تو کتاب کسی پہاڑ کی چوٹی پر رکھ دی جاتی، عوام کے دلوں میں اِلقا کردی جاتی (جیسا کہ وہ اکثر اعتراض بھی کرتے تھے کہ ہم پر وحی کیوں نہیں بھیجی جاتی) لیکن اس علیم و حکیم کو خوب معلوم تھا کہ تعلیم بلا عمل اور کتاب بلا رسول ناقص رہ جاتی ہے۔ یہی ضرورت تھی جس کو پورا کرنے کیلئے فرمایا کہ ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (احزاب:21) ”تمہارے لئے رسول اللہ (کی زندگی) میں عمدہ نمونہ ہے۔“[1] (3) اُسوہ الفاظِ کتاب یا ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟ تیسری بات جو یہاں ذہن نشین رہنی چاہئے وہ ’اُسوۂ حسنہ‘کا محل و مہبط ہے۔ قرآنِ کریم نے صرف دو ہی رسولوں کو اہل ایمان کے لئے بالصراحت اُسوہ حسنہ قرار دیا ہے: ایک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے حضرت ابراہیم علیہ السلام (اور ان کے اصحاب) حضرت ابراہیم علیہ السلام