کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 77
(1) پہلے ایمان کس پر؟ قرآن پر یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر
مقالہ نگار کا یہ کہنا کہ __” قرآنِ کریم پر ایمان لانے کے بعد، پھر یہ سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ یہ قرآن . . . کن ذرائع سے ہم تک پہنچا ہے۔“ دراصل اس مفروضہ پر قائم ہے کہ سب سے پہلے ہمارے پاس قرآن آیا۔ ہم فوراً ہی اس پر ایمان لے آئے۔ لہٰذا ایمان لا ڈالنے کے بعد اب یہ سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ یہ کن ذرائع سے ہم تک پہنچا ہے۔“
حالانکہ امر واقعہ یہ نہیں ہے کہ قرآن ہمارے پاس پہلے آیا ہو اور ہم اس پر ایمان لائے ہوں، پھر قرآن نے ہمیں محمد بن عبداللہ سے متعارف کروایا ہو، تب قرآن کے کہنے پر ہم نے اُنہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم کیا ہو۔ بلکہ واقعاتی صورتِ حال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس پہلے آئے، ہم ان کی رسالت پر ایمان لائے، تب ان ہی کے کہنے پر (حدیث رسول کی بنیاد پر) ہم نے قرآن کو قرآن تسلیم کیا ہے۔ اب یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس زبان پر اعتماد کرتے ہوئے ہم نے قرآن کو قرآن مانا ہے، اُسی زبان کوایمان بالقرآن کے فوراً بعد ہم نظر انداز کردیں اور خداے کائنات کی طرف سے مامور من اللہ نمائندہ ہونے کی حیثیت سے جو سرکاری تشریح، زبان ترجمان وحی نے فرمائی ہے وہ یکسر مہمل اور بے معنی ہوکر رہ جائے۔
(2) کتاب کے ساتھ، بشر رسول ہی کیوں؟
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنی کتاب کے ساتھ رسول بھیجا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تنہا کتاب بغیر کسی رسول کے آئی ہو،حالانکہ اس کے برعکس یہ نہ صرف یہ کہ ممکن ہی ہے (بلکہ عملی واقعہ بھی ہے) کہ کوئی رسول، اپنی پیغمبرانہ زندگی میں، رسول ہونے کے باوجود، ایک مدت تک محرومِ کتاب ہی رہا ہو اور منصب ِنبوت پالینے کے ایک مدت بعد اسے کتاب ملی ہو۔ کیا اللہ تعالیٰ اس پر قادر نہ تھا کہ اپنی کتاب براہ راست قوم کے ہر فرد تک پہنچا دیتا؟ اگر وہ قادر نہ تھا تو اسے اللہ مانا ہی کیوں جائے؟ لیکن اگر وہ قادر تھا(اور بالیقین قادر تھا) تو کیوں نہ ہر فردِ قوم تک اپنی کتاب براہ راست پہنچا دی؟ اور کیوں اس نے یہ ضروری جانا کہ کتاب کے ساتھ ایک رسول بھی بھیجا جائے؟ اور پھر رسول جب بھی بھیجا گیا تو کوئی فرشتہ نہیں، بلکہ انسانوں ہی میں سے بھیجا گیا۔ آخر یہ کیوں؟ __ اس لئے کہ