کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 76
نظر کرتے ہیں اور یہ بحث شروع کردیتے ہیں کہ ”قرآن اور روایاتِ حدیث میں کیا کیا فروق و امتیازات پائے جاتے ہیں۔“ پھر فروق و امتیازات بھی وہ بیان کئے جاتے ہیں جو نفس مسئلہ سے قطعی غیر متعلق ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جیسی ﴿وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الاَرْضِ وَلَاطَائِرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ﴾میں مرکزی نکتہ، انسانی زندگی اور بری جانوروں اور فضائی پرندوں کی حیات میں ’مثلیّت‘ کا پہلو ہے، لیکن بحث اس نکتہ کی بجائے یہ شروع کردی جائے کہ انسانوں کی زندگی اور زمینی جانوروں اور فضائی پرندوں کی حیات میں یہ اوریہ فرق پائے جاتے ہیں، لہٰذا ان سب کو ایک جیسا (مثلكم) قرار دینا درست نہیں ہے۔ یہاں زیربحث نفس مسئلہ تو یہ ہے کہ جن ذرائع سے (مثلاً کتابت، حفظ وغیرہ سے ) قرآن ہم تک پہنچا ہے، انہی ذرائع سے احادیث ِرسول بھی ہم تک پہنچی ہیں۔ مقالہ نگار ان ذرائع پر بحث کرنے کی بجائے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ”قرآن اور روایاتِ حدیث میں تو یہ فرق بھی ہے اور وہ فرق بھی، لہٰذا دونوں متماثل نہیں ہیں۔“ مقالہ نگار نے جو فروق بیان کئے ہیں وہ اگر فی نفسہ درست بھی ہوں تب بھی وہ اصل مسئلہ سے غیر متعلق ہیں، یوں خلط ِمبحث میں اُلجہا دینے میں مقالہ نگار کی سادگی و پُرکاری واقعی قابل داد ہے!!
چند اُمور پر غور فرمائیے!
بہرحال اصل مسئلہ زیر بحث سے گریز کرتے ہوئے مقالہ نگار قرآنِ مجید اور حدیث و سنت میں باہمی فرق کو یہ کہہ کر واضح فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم پر ایمان لانے کے بعد پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ قرآن جو چھ ہزار سے زیادہ آیات پر مشتمل ہے، کن ذرائع سے ہمارے پاس آیا ہے، اس کے برخلاف احادیث کا یہ مقام نہیں ہے۔[1]
حالانکہ بحث کا اصل ہدف ”وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعہ ہم تک قرآن اور روایات احادیث پہنچی ہیں۔“ نہ کہ یہ امر کہ ”قرآن کا مقام کیا ہے اور احادیث کا مقام کیا؟“
تاہم یہاں اس اقتباس میں جو کچھ کہا گیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہی بنیاد کی وہ غلطی اور کجی ہے جس پر انکارِ حدیث کے مسلک کا قصر فلک بوس تعمیر کیا گیا ہے۔ اگر کوئی سلیم الفطرت شخص جو واقعی متلاشی حق ہو، مسلک ِانکارِ حدیث کے لئے اپنی ضداور ہٹ دھرمی سے بالاتر ہوکر ٹھنڈے دل و دماغ سے یہاں غور کرے گا، تو اسے خود بھی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا!!