کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 75
نہیں فرماتے، لیکن یہ خیال فرماتے ہیں کہ یہ دونوں سہارے قرآن فہمی کے لئے کافی نہیں۔“[1] مولانا زاہد الراشدی کے نزدیک قرآن فہمی کا صحیح اور مناسب طریقہ کیا ہے؟ اس کا خلاصہ مقالہ نگار یوں پیش فرماتے ہیں : ”قرآن فہمی کے سلسلہ میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کے نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے متکلم کی منشا تک رسائی ضروری ہے۔ اس کیس میں اللہ تعالیٰ متکلم ہے لیکن اس تک براہ راست رسائی ممکن نہیں ہے کہ اس سے دریافت کیا جاسکے کہ آپ کی اس بارے میں کیامراد ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ کے نمائندے تک تو ہماری رسائی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اللہ تعالیٰ کی نمائندہ ہے جن کا مشن ہی یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچائیں اور اس کی وضاحت کرکے ہمیں اللہ تعالیٰ کی منشا سے آگاہ کریں۔“ اسکے بعد حضرت نہایت معصومانہ انداز میں اس حیرت و استعجاب کا اظہار فرماتے ہیں کہ ”قرآن، اُمت تک جن ذرائع سے پہنچا ہے، وہی ذرائع اس کی تشریح یعنی جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کو ہم تک منتقل کررہے ہیں۔ اگر وہ ذرائع قرآن کریم کو اُمت تک منتقل کرنے میں قابل اعتماد ہیں تو حدیث و سنت کو اُمت تک پہنچانے میں کیوں قابل اعتماد نہیں ہیں۔ اگر وہ حدیث و سنت کی روایت میں خدانخواستہ قابل اعتماد نہیں ہیں تو قرآن کریم کی روایت میں کس طرح قابل اعتماد ہوجاتے ہیں۔“[2] مولانا زاہد الراشدی صاحب کے اس نظریہ پر ’روایت پرستی‘ کا لیبل چسپاں کرتے ہوئے مقالہ نگار فرماتے ہیں: ”غرض کہ اصل نظریہ حضرت کا وہی روایت پرستی کا حامل ہے کہ قرآن کریم کو روایت کے ذریعہ سمجھا جائے اور تفسیر القرآن بالروایت کاجو طریقہ ہمارے ہاں چلا آرہا ہے، اسی کو جاری رکھا جائے۔“[3] نفس مسئلہ سے مقالہ نگار کا گریز اس کے بعد مقالہ نگار صاحب مولانا زاہد الراشدی صاحب کے اس موقف سے کہ ”قرآن اور صاحب ِقرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ہم تک ایک ہی ذرائع سے پہنچے ہیں، لہٰذا اگر وہ قابل اعتماد ہیں تودونوں (قرآن اور روایاتِ حدیث) کو ہم تک پہنچانے میں قابل اعتماد ہیں اور اگر ناقابل اعتماد ہیں تب بھی دونوں کو ہم تک پہچانے میں ناقابل اعتماد ہیں۔“ صرفِ