کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 74
تحقیق و تنقید پروفیسر محمد دین قاسمی قرآن فہمی اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ’طلوعِ اسلام‘ كے ’محدث‘كى تنقيد ميں لكھے گئے مباحث كا جائزہ حصہ دوم ’طلوعِ اسلام‘ مئی 2005ء کے شمارہ میں خواجہ ازہر عباس صاحب __ ”قرآن فہمی وحدیث نبوی “ موٴقر ماہنامہ محدث سے چند گزارشات __ کے زیرعنوان فرماتے ہیں : ”قرآن فہمی کے اُصولوں اور قواعد کے سلسلہ میں محترم پرویز صاحب اور محترم جاوید غامدی صاحب کے حوالے سے مضمون میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جناب خورشید ندیم، پرویز صاحب کے قرآن فہمی کے اس طریقہ کو پسند نہیں فرماتے جس کی رو سے وہ قرآن کریم کو صرف لغت کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اس کے برخلاف طلوعِ اسلام جناب غامدی صاحب کے طریقہ کو کہ ”وہ قرآن کوجاہلی دور کے عربی ادب اور شعر وشاعری کے ذخیرے کی بنیاد پر سمجھنا چاہتے ہیں، درست خیال نہیں کرتا۔“[1] اس پر مولانا زاہد الراشدی صاحب فرماتے ہیں : ”جہاں تک فہم قرآن کے بنیادی تقاضوں کا تعلق ہے، اگرچہ لغت اور ادبِ جاہلی دونوں اس کی ضروریات میں سے ہیں، لیکن فہم قرآن کا انحصار ان دونوں پر یا ان میں سے کسی ایک پر نہیں ہے، یہ دونوں صرف معاون ہیں اور فہم قرآن تک رسائی کے ذرائع میں سے ہیں لیکن اس کی بنیاد جس چیز پر ہے، اسے دونوں حضرات فہم قرآن کی بنیاد کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔“[2] اس پر مقالہ نگار، مولانا زاہد الراشدی کے اس نقطہ نظر پر یوں اظہارِ خیال فرماتے ہیں: ”ان دنوں حضرات (یعنی پرویز صاحب اور جاوید غامدی صاحب یا طلوعِ اسلام اور اشراق) کے اختلاف سے صاحب ِمضمون فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ صاحب ِمضمون کا یہ نظریہ ہے کہ ان دونوں ہی حضرات کا قرآن فہمی کا طریقہ غلط ہے، وہ (زاہد الراشدی صاحب) لغت اور ادبِ جاہلی اور محاوروں کو اہمیت تو دیتے ہیں، ان کی اہمیت سے صرفِ نظر