کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 73
ڈاکٹر صاحب کے دو بیٹے جواد ماجد، نوید ماجد اپنا مکان خرید کرکے اس میں رہائش پذیر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک بھائی ساجد اپنے آپ کو اس مکان اور پنشن میں حصہ دار کہتا ہے۔ براہ کرم اسلامی نکتہ نظر کے مطابق فتویٰ صادر فرمائیں۔ جواب : اس صورت میں پنشن کے حقدار وہ لوگ ہیں جو ترکہ کے وارث بنتے ہیں۔ وہ اپنے حصص کے اعتبار سے پنشن کے بھی وارث ہیں۔ موجودہ صورت میں بیوہ کے لئے آٹھواں حصہ ہے اور باقی کچھ دو بیٹوں کے لئے جبکہ بھائی ساجد محروم ہے کیونکہ بیٹوں کی موجودگی میں شرعاً وہ وارث نہیں بنتا۔ تصحیح مسئلہ 16سے ہے، دو بیوہ کے لئے اور سات سات ہر بیٹے کے لئے ہے۔ کل حصص سولہ ہوئے۔ سوال: ایک شخص کی زرعی زمین اور دکانیں وغیرہ کچھ جائداد ہے۔ اس کی ایک ہی بیٹی ہے اور والدین، بیوی یا بھائی بہن زندہ نہیں ہیں۔ دو مرحوم بھائیوں سے بھتیجے بھتیجیاں اور دو مرحوم بہنوں سے بھانجے اور بھانجیاں ہیں۔ تقسیم وراثت کے سلسلے میں یہ سوالات ہیں : (1) کیا وہ اپنی کل جائداد اپنی زندگی میں اپنی بیٹی کو ہبہ کرسکتا ہے؟ (2) اگر نہیں کرسکتا تو اس کی جائداد کیسے تقسیم ہوگی؟ (3) ایک بھتیجا فوت ہوچکا ہے تو کیا اس کی اولاد کو بھی کچھ ملے گا یا وہ محروم رہے گی؟ (4) ان وارثوں میں سے کسی کے لئے الگ سے وصیت کرسکتا ہے؟ (5) بھائی کی اولاد کو اور بہن کی اولاد کو دو اور ایک کے حساب سے دیا جائے گا یا تمام بچوں کو مجموعی طور پر مذکر و موٴنث کے لحاظ سے دو اور ایک کے حساب سے تقسیم کیا جائے گا۔ (6) زمین تو کنالوں اور مرلوں میں تقسیم ہوجائے گی، مگر دکانیں کیسے تقسیم ہوں گی۔ اسکی آٹھ دکانیں ہیں۔ چار تو اس کی بیٹی کوچلی گئیں، باقی چار کیسے تقسیم ہوں گی۔ (غلام حسین ،قصور) جواب :آدمی کو اس بات کا اختیار ہے کہ بقائمی ہوش و حواس ،صحت و تندرستی میں کسی ایک کو جتنی چاہے جائداد ہبہ کرسکتا ہے، البتہ اولاد کو ہبہ کی صورت میں برابری ضروری ہے۔ بایں صورت ساری جائداد لڑکی کے لئے ہبہ ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس کا قبضہ بھی ہو۔ دیگر ورثا میں سے جس کو چاہے وصیت کرسکتا ہے بشرطیکہ ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو۔ اور عدمِ ہبہ کی صورت میں صرف زندہ بھتیجے وارث بنتے ہیں، بھتیجیاں اور بھتیجے کی اولاد، بھانجے بھانجیاں سب محروم ہیں۔
[1] القرآن الكريم ، الملك : 21