کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 71
ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے دوسرا ملک ہونے کی وجہ سے اعتبار نہیں کیا، رہا صوبہ سرحد کا معاملہ تو بسبب ِقرب کے وہ ایک ہی ہیں۔ جب ایک جگہ دوسری جگہ سے اتنی دور ہو کہ رؤیت ہلال میں فرق پڑھ سکتا ہو تو اس صورت ایک جگہ کی رؤیت کا دوسری جگہ اعتبار نہیں۔ لاہور کراچی یا پشاور کراچی کا رؤیت کے اعتبار سے زیادہ تفاوت نہیں،اس میں چنداں ترددکی ضرورت نہیں۔ سعودی عرب رقبہ کے حجم میں پاکستان سے بڑا ملک ہے لیکن اس میں ایسا کبھی اختلاف نمودار نہیں ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے جملہ اُمور مرتب اور علمی قیادت کے ہاتھ میں ہیں۔ زادها اللّٰه عزا وشرفا
(4) اثبات اور خروجِ رمضان کے لئے واقعی عادل مسلمانوں کی شہادت ہونی چاہئے، محدثین نے جن شرائط کے تحت اہل بدعت کی روایت کا اعتبار کیا ہے، وہی قریباً رؤیت ِہلال میں بھی ہونی چاہئیں۔ ملاحظہ ہو: توضیح الافکار (2/199تا 212)
(5) طاغوتی حاکم کا حدیث من رأیٰ منکم منکرًا کی روشنی میں معارضہ ہونا چاہئے۔
زکوٰة قیمت ِخرید کے اعتبار سے قیمت فروخت کے اعتبار سے؟
سوال: پانچ مرلہ کا ایک پلاٹ کاروباری نیت سے خرید کیا ہے ،کیا زکوٰة موجودہ قیمت کے حساب سے ادا کی جائے یا قیمت ِخرید کے حساب سے؟
جواب : کاروباری نیت سے خریدے گئے پلاٹ میں زکوٰة موجودہ قیمت کے حساب سے ہوگی، بشرطیکہ اس پر سال گزر جائے۔ سنن ابوداود میں بہ سند حسن سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
فإن رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم كان يأمرنا أن نُخرج الصدقة من الذى نُعِدُّ للبيع
”ہر اس چیزسے زکوة نکالنے کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے جس کو ہم سامان تجارت شمار کریں۔“
جمہور اَہل علم اسی بات کے قائل ہیں۔
سوال: سُود/ ربا کی تعریف آپ کی تحقیق کے مطابق کیا ہے؟
جواب:چند مخصوص اموال میں زیادتی کا نام سود ہے، اس کی دو صورتیں ہیں:
(1) سود زیادہ (ربا الفضل) (2) سود اُدھار (ربا النسيئة)
’سود زیادہ ‘یہ ہے کہ اُصولی ربویات (سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک) میں سے ایک جنس کا تبادلہ اس جنس کے ساتھ کمی بیشی میں کرنا۔اس کے علاوہ ہر اس جنس پر بھی سود کے
[1] سنن نسائى:حديث نمبر3227