کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 70
کرلیں یا ہم 29 کو چاند نہ دیکھ لیں۔ حضرت کریب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: کیا آپ کے لئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روٴیت اور ان کا روزہ رکھنا کفایت نہیں کرتا؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے لاہور والے کراچی کی یا کراچی والے پشاور کی یعنی ملک کے دور ترین علاقے والے ایک دوسرے کی شہادت پر عید کریں یا نہ کریں؟ (4) احادیث میں ہے کہ دو عادل مسلمان گواہی دیں تو روزہ رکھو یا موقوف کرو۔( نسائی، احمد) تو کیا کسی مشرک، بدعتی و مقلد کی گواہی پر روزہ رکھا یا موقوف کیا جاسکتا ہے۔ قرآن وحدیث سے واضح فرمائیں۔اور آپ علماے کرام سے ہی ہمیں علم ہوا کہ محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ اس آدمی کی روایت اور شہادت قبول نہیں کرتے تھے جس نے زندگی میں ایک جھوٹ بھی بولا ہوتا۔ (5) اگر طاغوتی حاکم وقت عوام پر کوئی فیصلہ قرآن و حدیث کے خلاف پیش کرے تو اسے ماننا چاہئے یا نہیں؟ قرآن و حدیث سے واضح فرمائیں۔ ( خالد محمود سلفی،اوکاڑہ) جواب: احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اثباتِ رمضان کے لئے ایک عادل مسلمان کی شہادت کافی ہے اور خروجِ رمضان وغیرہ کے لئے دو عادل گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ اس سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ چاند کو دیکھنے سے مقصود ہر ایک کا دیکھنا نہیں بلکہ شرعی طور پراس کا اثبات ہے۔ کسی اسلامی ملک میں شرعی شرائط کے ساتھ رؤیت ِہلال کا اعلان چاہے نئی ایجادات کے ذریعہ ہو، بشرطیکہ اصل رؤیت میں شبہ نہ ہو تو وہ قابل اعتماد ہے۔ جس کی سب لوگوں کو تعمیل کرنی چاہئے اور اعلان میں تاخیر ِنزاع کا باعث نہیں ہونی چاہئے۔ بعض اوقات کوئی معقول وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ سعودی عرب میں بھی ایک بار ایسے ہوا اور سب علماے کرام نے اسے تسلیم کیاتھا۔ (2) اگر چاند نظر نہ آئے تو واقعی یہی حکم ہے اور جدید ایجادات کے ذریعہ رؤیت کی صورت میں بھی رؤیت قابل اعتبار ہے۔ (3) سوال میں مذکور حدیث کی شرح میں اہل علم نے بہت کچھ لکھا ہے، مگر راجح بات یہ ہے کہ ایک ملک کی رویت دوسرے ملک کے لئے کافی نہیں کیونکہ شام دوسرا ملک ہے۔ ظاہر یہی
[1] Ben Wattenberg, The Birth Dearth, New York 1987, P:97 [2] Paul Demeny, " International Aspects of Population Policies" y the Population Council, Centre for policy studies, working paper No.80, New York 1982, P:8 [3] ايلزبتہ ليا گن، خاندانى منصوبہ بندى: طاقت ،سياست اور مفادات كا عالمى كهيل (ترجمہ) ،انسٹيٹيوٹ آف پاليسى سٹڈيز اسلام آباد، 2002ء، ص:55