کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 67
کرتا ہے کہ جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور جو دورانِ جنگ شہریوں، طبی امداد دینے والوں اور جنگی قیدیوں سے متعلق تمام معاہدوں اور خاص طور پر جنیوا کنونشن کی کھلی کھلی خلاف ورزی پر مشتمل ہیں اور ایسے ہی ان کے ان کرتوتوں کی بھی جن میں بین الاقوامی قانون کے علیٰ الرغم ممنوعہ اسلحہ کا استعمال، گھروں، پبلک عمارتوں ، مساجد، گرجوں اور دیگر معابد کو نشانہ بنانا، ملک کے بنیادی ڈھانچہ کو تباہ کرنا، فصلوں اور حیوانات کو برباد کرنا، مساجد کے اندر زخمیوں کو تہ تیغ کرنا، مصیبت زدہ افراد تک مدد پہنچنے میں حائل ہونا، ہسپتالوں پر اندھا دھند بمباری کرنا اور طبی امداد دینے والوں کو اپنے انسانی فرائض کی بجاآوری سے روکنا بھی شامل ہیں۔
(8) اتحاد، عراق کے تمام فرقوں اور جماعتوں کو باہمی رسہ کشی اور خانہ جنگی کے فتنہ سے بچاوٴ کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ مناسب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ارضِ عراق کو قابض فوجوں سے پاک کرنے کے لئے یکجا مزاحمت کی جاسکے جوکہ ان تمام اقوام کا دینی اور قانونی حق ہے جو غیر ملکی قبضے کا شکار ہوچکی ہوں اور یہ وھ حق بھی ہے کہ جسے بین الاقوامی معاہدات اور اقوامِ متحدہ کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔
عراقی عوام کا عمومی طور پر اور وہاں کے مفکرین اور علما کا خصوصی طور پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان گروہوں سے باخبر رہیں جو اسلام اور اہل اسلام کو اور مزاحمتی تحریک کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ قومی سطح پر مزاحمتی تحریک کو ایسی تمام کوششوں کی مذمت کرنا چاہئے اور ان کے ایجنٹوں سے خبردار کرنا چاہئے۔ اتحاد، تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ عراقی عوام کی دامے، درمے، سخنے پوری پوری مدد کریں اور ناجائز قبضہ کو جلد از جلد ختم کرانے اور ارضِ عراق کوایک وحدت میں پروئے جانے کے مقاصد کو بروئے کار لانے میں ان کی ہم نوائی کریں۔
(9) اتحاد، اُمت کے تمام فعال عناصر کے درمیان مکمل مصالحت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جن کا تعلق عوام سے بھی ہے اور حکام سے بھی، ان میں علما اور مبلغین بھی شامل ہیں اور مختلف جماعتیں اور تنظیمیں بھی۔ اور اس کی بنیادوں میں شامل ہے، حقوق کی کفالت، آزاد فضا کا قیام، میدانِ مشارکت میں وسعت پذیری کا ہونا اور اقوال واعمال میں پُرامن طریق کو اپنانا۔ اتحاد، اصلاحِ امت ، دعوت الی اللہ اور اُمت کے دینی اور وطنی مسلمہ قواعد اور اُصولوں کے پابند ہونے اور ان کا دفاع کرنے میں علما کے کردار کی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے کہ ان کے فعال ہونے سے اُمت اس قابل ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقصد ِحیات کو
[1] Central Intelligence Agency," Political Perspectives on Key Global Issues", March 1977 (Jan, 1995) P:4
[2] Central Intelligence Agency, Youth Deficits: An emerging population problem, Aug. 1990, (Dec 1990) P: 801۔807
[3] Ben Wattenberg, The Birth Dearth, New York 1987, P:97,98