کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 140
اسمٰعیل میرے پیچھے بیٹھے میرے لئے دعا کررہے ہوتے: اللّٰهم أيده بروح القدس ان کی پرخلوص دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت تیزی سے مجھے سٹیج پر آنے کی توفیق بخشی۔“ (والدى ومشفقى از مولانا عطاء الرحمن بن مولانا شیخوپوری: ص 85) آپ نے اپنی زندگی میں بے شمار داعی اور خطیب تیار کرنے، ان کو پروان چڑھانے اور منبر رسول کے تقدس کے رموز سکھانے کے علاوہ کئی دینی مراکز بھی قائم کئے۔ شیخوپورہ میں آپ کا معمول یہ تھا کہ کسی ایک دینی مرکز کو تعمیر کرکے، آباد کرنے اور اس میں اسلام کی تبلیغ و تعلیم کا خاطرخواہ انتظام کرنے کے بعد آپ اگلی جگہ کی راہ لیتے او راس مرکز کو بھی یوں ہی تعمیر کرتے، آباد کرتے اور اس کو تو حید وسنت کا گہوارہ بناتے۔مولانا شیخوپوری کے خطاب میں تمثیلی انداز بڑا موٴثر ہوتا اور آپ کئی مثالوں سے ، اشعار سے اور خوبصورت لے میں تلاوت کئے گئے قرآن کریم سے سامعین تک اپنا پیغام پہنچانے میں خوب کامیاب رہتے۔ آپ کی ذات اس دو رمیں ایک مخلص داعی اسلام کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھی۔ عمر مبارک کی چلتے پھرتے ستاسی بہاریں گزارنے کے بعد آپ کو مختصر سا بخار ہوا، جوکہ مومن کی کوتاہیوں کاکفارہ ہوتا ہے اور آپ نے جان ، جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ آپ کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک او ربیرونِ ملک میں پھیلی، دور دور سے آپ کے عقیدت مند اور میرے جیسے روحانی فرزند ہزاروں کی تعداد میں آپ کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے۔ پہلی نمازِ جنازہ حضرت مولانا معین الدین لکھوی نے نہایت رقت سے پڑھائی کہ لوگوں کی آہیں نکل گئیں اور وہ سسکیاں بھرکر رو رہے تھے ۔ دوسری مرتبہ کمپنی باغ شیخوپورہ میں آپ کی نمازِ جنازہ حافظ محمد یحییٰ میرمحمدی نے پڑھائی۔ بلا شبہ آپ کا جنازہ تاریخی تھا، اگر اس دن بارش نہ ہوتی تو بلا معاوضہ لاکھ نہیں بلکہ لاکھوں نے شمولیت کرنی تھی تاہم پھر بھی عقیدت مند نصف پنڈلیوں تک پانی میں صفیں باندھ کر نمازِ جنازہ میں دعائیں مانگتے رہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ نصیب فرمائے اور ان کے پسماندگان مولانا عطاء الرحمن، حافظ محمد خالد، مولانا عزیز الرحمن وغیرہم کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین! سلام اللّٰه عليك محمد حسين ورحمته ماشاء أن يترحما وما كان هلك حسين هلك واحد ولكن بنيان القوم تهدما