کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 138
مولانا مرحوم اللہ تعالیٰ کی توفیق وعنایت سے ساری زندگی اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے اور مکّے کی مثال دے کر سمجھاتے رہے کہ مسلمانوں ایک مُکے کی طرح متحد ہوجاؤ، دیکھو اکیلی انگشت ِشہادت، وسطیٰ، بنصر، خنصر اور انگوٹھا کچھ نہیں کرسکتے لیکن جب یہ متحد ہوجاتے ہیں تو مُکا بن کر بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اے مسلمانوں تم مُکے کی طرح متحد ہوجاوٴ اور بنیانِ مرصوص بن کر دشمن کا مقابلہ کرو اور باہم ایک دوسرے کو قتل کرکے یہود و ہنود کا راستہ صاف نہ کرو۔ آپ نہ صرف یہ کہ اسلامیانِ پاکستان کے خطیب تھے بلکہ آپ اسلامیانِ برطانیہ، امریکہ، کویت اور سعودی عرب کے مقبول عام خطیب بھی تھے اور جہاں کہیں آپ کا خطاب ہوتا ٹیپ ریکارڈز کے انبار لگ جاتے،بقول متنبی: وما الدهر إلامن رواة قصائدي إذا قلت شعرًا أصبح الدهر منشدا ” زمانہ میرے قصیدوں کا راوی ہی تو ہے۔ جب میں کوئی شعر کہتا ہوں تو زمانہ اسے گانے لگتا ہے۔“ بہت سے خطبا نے آپ کی زندگی میں آپ کا سا بننے کی کوشش کی بلکہ ایک احمق خطیب نے آپ کے سامنے اپنی اس احمقانہ خواہش کا اظہار بھی کردیا کہ کاش ایک آل پاکستان کانفرنس کا انعقاد ہو اور اس میں آپ کا خطاب ہو۔ جب آپ کا خطاب جوبن پر ہو تو آپ یکایک اپنا خطاب بند کرکے اپنی پگڑی میرے سر پر رکھ دیں اور اعلان کردیں کہ آج کے بعد یہ خطیب پاکستان ہے۔ آپ اس کی اس خواہش پر مسکرا کر خاموش ہوگئے۔ آپ اکثر و بیشتر توحید ور سالت کی عظمت بیان کرتے اور آیاتِ قرآنیہ اتنی سریلی آواز سے پڑھتے کہ سننے والے وجد میں آجاتے اور جب شانِ مصطفی بیان فرماتے تو آپ کے سر مبارک سے لے کر پاوٴں مبارک تک کے اوصاف پر مبنی اشعار پڑھ کر اس انداز سے بیان کرتے کہ سامعین فرطِ عقیدت سے جھومنے لگتے۔ شانِ رسالت میں آپ درج ذیل اشعار دلکش انداز میں پڑھتے تھے: سہپن نفاست پُھلاں دا سہرا واہ سبحان اللہ محمد دا چہرہ مصور نے بس انتہا کر سٹی بڑی ریجھ دے نال تصویر کٹی حسیناں جمیلاں دا منہ موڑ دِتا محمد بنا کے قلم توڑ دیتا