کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 137
اس نوجوان کی ضمانت کینسل ہوگئی اور اللھ نے اس کے شر سے آپ کو بچا لیا۔ چنانچہ اسی رات خطاب سے قبل گاوٴں کے سربرآوردہ حضرات نے آپ کو اپنے مقامی عالم سے مناظرہ کرنے کی دعوت دی، آپ نے فوراً قبول کرلی اور اس محفل میں اس مقامی عالم کے علم کی جو قلعی کھلی وہ ایک نہایت ہی مضحکہ خیز کہانی ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں ہے جو شخص دلچسپی رکھتا ہو وہ آپ کی خدمات پر مشتمل کتاب والدى ومُشفقى(ناشر: جامعہ محمدیہ، توحید آباد شیخوپورہ) کا مطالعہ کرے۔ چنانچہ اس رات آپ کی تقریر سے آدھے سے زیادھ گاوٴں کے باشندوں کے سینے صاف ہوگئے اور بعد ازاں وہ نوجوان بھی داعیانِ کتاب و سنت کا جانباز سپاہی بن گیا۔
آپ کی زندگی کے آخری دنوں میں ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک رحمۃ اللہ علیہ او رپروفیسر عطاء الرحمن ثاقب رحمۃ اللہ علیہ قتل کیس کے مجرموں نے انکشاف کیا کہ ہمارے پروگرام میں مولانا محمد حسین شیخوپوری کو قتل کرنا بھی شامل تھا اور اس کی منصوبہ بندی میں ہی تھے کہ ہم حیرت انگیز طریقے سے دھر لئے گئے۔ حضرت مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ ،ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک رحمۃ اللہ علیہ اور پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق اسلامیانِ پاکستان گواہ ہیں کہ یہ علما فرقہ پرستی سے کوسوں دور تھے اور حسبة اللہ لوگوں کو قال اللہ وقال الرسول کی طرف دعوت دیتے تھے لیکن ستیاناس ہو آتش حسد کا کہ اس نے سینکڑوں بے گناہ علما کی طرح ان دو بے گناہ علما کو بھی اپنا لقمہ بنا لیا۔
جب مولانا کو اپنے قتل کے منصوبے پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو آپ نے فرمایا: ہم اپنے قتل ہونے سے کب ڈرنے والے ہیں بلکہ ہم تو اس شہادت کو قبول کرنے پر تیار ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ مخالف مسلک علما کے قتل کے بدلے سو شہید کے ثواب کا فتویٰ دینے والے مولوی بذاتِ خود یہ ثواب کیوں نہیں حاصل کرتے؟ اور بے سمجھ جذباتی نوجوانوں سے ایسے بھیانک جرم کا ارتکاب کیوں کرواتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ فرقہ پرست مولویوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں اور وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اس طرح کسی بے گناہ کو قتل کرنے والا ابدی جہنمی ہے، اس کی دنیا بھی برباد اور آخرت بھی لیکن پھر بھی وھ قابیل کی طرح حسد سے جلتے رہتے ہیں۔ لیکن طبعی بزدلی کی وجہ سے بذاتِ خود اس گھناوٴنے جرم کا ارتکاب کرنے سے ڈرتے ہیں، البتہ بے سمجھ نوجوانوں کو اپنا آلہ کار بنا کر پھانسی لگوا دیتے ہیں۔