کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 136
کے قریب پولیس افسروں نے وردیاں اُتار کر پولیس ملازمت ہی چھوڑ دی جس کی وجہ سے آپ پر مقدمہ قائم ہوگیا۔ راقم الحروف بذاتِ خود بہت سے ایسے افراد کو جانتا ہے جو کسی دور میں کٹر قسم کے بدعتی تھے اور لاوٴڈ سپیکروں پر اپنے مخالفین کو منکر اور گستاخ کے القاب دے کر کوستے تھے لیکن وہ آپ کی تقریر سن کر توحید و سنت کے داعی بن گئے۔ غالبا ً 1974ء کی بات ہے کہ میں نے دیپالپور کے جلسہ عام میں ایک صاحب کو آپ کی تقریر ریکارڈ کرتے دیکھ کر پوچھا کہ آپ نے یہ ٹیپ ریکارڈ کتنے میں خریدی ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ میں نے بھینس بیچ کر یہ ٹیپ خریدی اور صرف مولانا محمد حسین کی تقاریر ریکارڈ کرنے کے لئے خریدی ہے اور مزید بتانے لگا کہ میں ابتدا میں اہل توحید کا جانی دشمن تھا اور مختلف جلسوں میں ان کے خلاف نظمیں پڑھتا اور انہیں مغلظات سناتاتھا لیکن اتفاق کہ میں نے مولانا محمد حنیف شیرنگری کی مسجد واقع بھائی پھیرو میں مولانا محمدحسین شیخوپوری کا شانِ مصطفی پر وعظ سنا تو اپنے جذبات پرقابو نہ رکھ سکا اور فرطِ عقیدت سے آنسو بہانے لگا اور اس دن سے قافلہ توحید ورسالت میں شامل ہوگیا اور گھر والوں سے لڑ بھڑ کر اُنہیں بھینس فروخت کرنے پر راضی کرلیا اور اس کی قیمت سے یہ ٹیپ خریدلی ہے اور اب جہاں کہیں مولانا کا وعظ ہوتا ہے، اسے ٹیپ کرنے آجاتا ہوں۔ آپ بنیادی طور پر زمیندار تھے اور راجپوت فیملی سے آپ کا تعلق تھا اور نہایت ہی بے تکلف قسم کے انسان تھے۔ ابتدا میں آپ بذاتِ خو دہی ہل چلا کرفصل کاشت کرتے تھے اور جب گوجرانوالہ، راولپنڈی، جہلم وغیرہ کے جلسوں میں خطاب کا وعدہ لینے والے آپ کے گاوٴں آتے تو وہ انہیں کھیتوں میں کام کرتے دیکھ کر یقین نہ کرتے کہ آپ ہی مولانا محمد حسین شیخوپوری ہیں۔ آپ صرف واعظ نہ تھے بلکہ دانشمند مناظر بھی تھے۔ ایک مرتبہ گرین ٹاوٴن لاہور کے حاجی عبدالرشید صاحب نے اپنے ہاں تقریر کے لئے مولانا محمد حسین شیخوپوری سے وعدہ لے لیا، جب آپ وقت ِمقررہ پر تشریف لائے تو مقامی عالم نے لوگوں کو مولانا کے خلاف بھڑکا دیا اور ان میں سے ایک آدمی جو کہ قتل کے مقدمے میں ضمانت پر رِہا تھا، اس نے ضمانت کنفرم ہونے کی صورت میں مولانا کو قتل کرنے کا عہد کرلیا۔ لیکن اللہ کا کرناایسا ہوا کہ