کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 132
تعارفی کتابچہ میں درج ہے کہ دنیا بھر میں شرح آبادی کی تبدیلی کا عمل ” اب محض قیاس نہیں رہا۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جسے ہر حال میں آنا ہے اور جب یہ انقلاب آئے گا تو کوئی چیز بھی سابقہ حالت میں نہیں رہے گی۔“[1] وسائل وآبادی کے توازن کے معاملے میں مثبت طور پر جہاں مادّی وسائل کی تنظیم و ترتیب کر کے اُنہیں تمام لوگوں کی ضروریات کے مطابق بنایا جا سکتا ہے، وہاں انسانی وسائل یعنی افرادی قوت کو مفید بنا کر معاشی ترقی اور سیاسی کامیابیوں کے لئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ تحدید آبادی کی تحریک پر وسائل خرچ کرنے کی بجائے انہی وسائل سے مختلف عملی میدانوں میں افراد کی تربیت کا بندو بست کیا جاسکتا ہے۔ پھر ان تربیت یافتہ افراد کو صنعتی دنیا میں بھیج کر، جہاں آبادی خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے، بہترین زرِمبادلہ حاصل کرنے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ اس طرح افراد کی ترقی کے ساتھ ساتھ قومی ترقی اور ملکی استحکام کو یقینی بنا یا جاسکتا ہے۔ وگرنہ اگر تحدید ِآبادی کی موجودہ تحریک کو جاری رکھا گیا تو شریعت ِاسلامیہ کے مطابق یہ منفی طرزِ عمل نتائج کے اعتبار سے کبھی مفید ثابت نہیں ہو سکتا اور وسائل کے ضیاع کے سوا کسی ہدف کا حصول ممکن نہیں ۔ کیونکہ آبادی میں اضافہ کا تعلق ان الٰہیاتی امور سے ہے جن کو انسانی کا وش سے روک لینا ممکن نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ’عزل‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (إذا أراد اللّٰه خلق شيىٴ لم يمنعه شيىٴ ) [2] ”جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرلے تو اسے (کائنات کی)کوئی چیز اس سے روک نہیں سکتی۔“ اسی طرح ایک اور حدیث کے مطابق جب آپ سے یہی سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (مامن نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلاوهي كائنة ) [3] ”( عزل کرو یا نہ کرو )جو روح قیامت تک پیدا ہونے والی ہے ،ہر صورت میں پیدا ہو کر ہی رہے گی۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ مانع حمل وسائل وذرائع بڑھا لینے کے باوجود مطلوبہ نتائج کا