کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 131
عامل جو ترقی کا بہت بڑا ذریعہ (Resource) ہو، جس سے قوم کا روشن مستقبل وابستہ ہو، جس سے قومی اور ملی کامیابی اور عروج و ترقی کی راہیں کھلتی ہوں، اس کی تحدید کی تحریک کسی بھی قوم کے لئے کسی بھی سطح پر مفید کیونکر ہو سکتی ہے۔ مادّی وسائل(Material Resources) کی طرح انسانی وسائل (Human Resources) کی وسعت اور توسیع ہی انسانیت اور ملک و ملت کے لئے کامیابی و ترقی کا پیغام ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کائنات کے سب سے عظیم دانا وحکیم اور محسن انسانیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آبادی میں تو سیع کو خاندانی نظام کی بنیادی حکمت قرار دیتے ہوئے کثرت ِ اُمت کو اپنی ذات عالی مقام کے لئے باعث فخر بتایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد اقدس ہے :
( تزوجوا الودود الولود فإنى مكا ثر بكم الأمم ) [1]
”محبت کرنے والی اور کثرتِ اولاد (کی صلاحیت) والی عورت سے شادی کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کے سبب دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔“
اُصولی اعتبار سے مادّی وسائل(Material Resources) اور انسانی وسائل (Human Resources) میں اگرعدمِ توازن پیدا ہو جائے تو یہ توازن پورا کرنے کے لئے کم وسائل کو زیادہ اور منظم کرنے کی بجائے زیادہ وسائل کو کم کرنا، منفی اندازِ فکر (Negative approach) او رقنوطیت (Passimism) کے رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسا طرزِ فکر وعمل کبھی ترقی و عروج کے لیے معاون ثابت نہیں ہواکرتا۔ دنیا میں فقط وہی اقوام ترقی و غلبے کی منازل حاصل کر تی ہیں جو مثبت طرزِ فکر (Positive approach) کو اپناتے ہوئے پورے تیقن اوراُمید (Optimism) کے ساتھ مثبت انداز میں جدو جہد کریں۔ یہی مشورہ امریکی تجزیہ نگار ایلزبتہ لیاگن آبادی اور ترقی سے متعلق مختلف تجزیوں کے بعد ترقی پذیر ممالک کو دیتی ہے اور اس مثبت طر زِ عمل کے نتیجے میں روشن مستقبل کی نوید سناتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک، جن پر آبادی کی کمی کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جارہا ہے، بہتر ہو گا کہ وہ اس ساری صورتِ حال کو مد نظر رکھیں۔ غریب ترین ممالک کو بھی، زیادہ آبادی سے فائدہ ہی پہنچے گا۔ جیسا کہ سی ایس آئی ایس (Center for Strategic and International Studies)کے