کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 130
تیسری دنیا کی اقوام میں شرحِ آبادی میں اضافہ کو روکنے کے لئے موٴثر پالیسی کے تحت مربوط جدوجہد کی جائے، تاکہ ہر دو طرح کی کوششوں کے ذریعے اس دھماکہ آبادی(Population Explosion) سے اپنی صنعتی مادّی ترقی کا تحفظ اور سیاسی غلبے کی بقا ممکن ہو۔ چنانچہ ایک امریکی بااختیار ادارے کا سکالرویٹن برگ(Wattenberg) اس حقیقت کا ادراک واظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اگر مغرب کی تولیدی صلاحیت (Fertility) اگلی دھائیوں میں واپس اپنی عوضی سطح (Replacemat) تک زیادہ ہو بھی جائے، تب بھی تیسری دنیا کی آبادی آج کے مقابلے میں دنیا کی آبادی کابڑا حصہ ہو گی اور تیسری دنیا کے یہی ممالک نسبتاً زیادہ خوشحال اور طاقتور بھی ہوں گے۔[1]
یہ امکان وتجزیہ مغربی مفکرین اور ان کی حکومتوں کے پالیسی ساز اداروں کو اس کو شش پر مجبور کرتا ہے کہ وہ عالمی معاشی اداروں اور مختلف ترغیبات و ترہیبات کے ذریعے تیسری دنیا میں تحدید ِآبادی کی تحریک موٴثر طریقے سے جاری رکھیں اور اپنے مطلوبہ اہداف کے موہوم امکان کو یقینی بنانے کے لئے سر گرم عمل رہیں۔ مثلاً امریکی پاپولیشن کونسل کے مرکز برائے پالیسی سٹڈیز کے ایک ورکنگ پیپر میں، جو 1982ء میں شائع ہوا ، آبادیوں کی شرحِ نمو کے فرق کا تجزیہ کر تے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ غلبے اور ترقی کے توازن میں اس امکانی تبدیلی کے آگے بند باندھنے کے لئے ’موٴثر اقدامات‘ بہت ضروری ہیں۔[2]
مذکورہ بالا ورکنگ پیپر اور اس طرح کی مختلف رپورٹس کا تذکرہ کر تے ہوئے ایلزبتہ لیاگن(Alizabeth Liagin) لکھتی ہیں کہ
” اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جن گروہوں کی تولیدی شرح مسلسل نیچے آرہی ہے (یعنی یورپی نسل کے افراد)، اُنہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ ایشیائی ، افریقی ، عرب اور لاطینی امریکی قومو ں کے ہاتھوں ان کا ’مکمل صفایا‘ قضائے مبرم ہے۔ ہاں اگر شعوری کوشش کی جائے کہ یہ میلان اور روش بدلے، تب شاید ایسا نہ ہو۔“[3]
گویا یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آبادی(میں اضافہ) ایک بہت بڑا معاشی عامل ہے۔ جو مادّی ترقی اور سیاسی غلبے کے لئے مسلمہ طور پر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا یسا