کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 129
روزنامہ ڈان کراچی کی یکم مئی 2005ء کی اشاعت میں ایک جاپانی کالم نگار نے جاپانی آبادی کی کم شرح پیدائش کو جاپانی معیشت اور اس کی صنعتی ترقی کے لئے شدید خطرہ قرار دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک تجزیے کے حوالے سے کالم نگار لکھتا ہے کہ جاپان کی آبادی جو 2004ء میں 127ملین ہے، 2050ء میں 109 ملین رہ جائیگی جن میں ایک بہت بڑی تعداد بوڑھوں کی ہو گی۔ جبکہ معاشی جدوجہد کرنے والوں کی تعداد بہت کم رہ جائے گی ۔ جس سے جاپانی معیشت اور صنعت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ اس خطرے کو محسوس کر تے ہوئے جاپانی وزارتِ انصاف نے ایک بڑی تعداد میں افرادی قوت درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔[1]
ایشیائی آبادی کے بارے میں اسی قسم کا ایک تجزیہ ایک اور غیر ملکی کالم نگار مروان میکن مارکر (Marwaan Macan Markar) نے روزنامہ ڈان کی اس اشاعت میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں کیا ہے۔[2]
یہ تمام تجزیے اس حقیقت کا بین ثبوت ہیں کہ مادّی ترقی اور صنعتی غلبہ آبادی میں اضافہ کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اور آبادی کی بلند شرحِ نمو انفرادی و اجتماعی معاشی ترقی کے لئے ہمیشہ سے ایک لازمی عامل کے طور پر کردار ادا کرتی آئی ہے۔ مستقبل میں بھی ترقی اور غلبے کا فیصلہ اسی بنیاد پر ہونا یقینی امر ہے۔ اس حقیقت کا مکمل ادر اک اور احساس رکھنے کے باوجود ترقی یافتہ اقوام اپنی آبادی میں مطلوبہ اضافہ کرنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ خاندانی نظام کی تباہی، آزاد جنسی ماحول، جدید معاشرتی رجحانات، نئے اخلاقی معیارات، اور اس نوع کے دیگر بے شمار اسباب کی بنا پر ترقی یافتہ معاشروں کی ’آزاد ‘عورت سے معاشرتی بندھنوں کی پابند ہو کر اضافہ آبادی کے لئے کسی موٴثر کردار کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
اگر بالفرض معاشرتی و اخلاقی ماحول میں تبدیلی کی کوشش کے ذریعے کوئی مثبت لائحہ عمل اپنا بھی لیا جائے تو بھی تیسری دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کا مقابلہ کرنا ترقی یافتہ معاشروں کے لیے ممکن نہیں۔ لہٰذا سالہا سال کے تجزیوں اور اعدادو شمار کے حسابات کے بعد بڑی طاقتیں اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ اپنے معاشروں میں اضافہ آبادی کی ترغیبات کے اعلانات کے ساتھ ساتھ