کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 128
امریکہ کے سابق صدارتی امیدوار اور مفکر پیٹرک جے بکینن (Patrick J. Buchanan) نے آبادیاتی عامل کے مختلف النوع اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی کتاب "The Death of the West"میں مغربی اقوام کی کم شرحِ آبادی کو ان کی’ موت‘ قرار دیا ہے۔ اور جرمنی ، اٹلی، روس ، انگلستان، امریکہ اور دیگر ممالک کی گھٹتی ہوئی آبادی کو ان کی معاشی ترقی اور سیاسی غلبے کے لیے شدید ترین خطرہ قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں سال 2050ء تک یہ ترقی یافتہ اقوام اقلیتوں میں بدل چکی ہوں گی اور ان کی جگہ افریقی، ایشیائی اور لاطینی امریکی اقوام اپنی آبادی کی زیادہ شرح کی بنیاد پر غلبہ حاصل کر چکی ہوں گی۔ وہ لکھتا ہے کہ ”ایک اندازے کے مطابق آئس لینڈ (Iceland) سے روس (Russia) تک 47 یورپی اقوام کی آبادی جو کہ سا ل2000ء میں 728 ملین تھی،2050ء میں صرف 556ملین رہ جائے گی۔ اس کے خیال میں 52۔1347ء کے سیاہ طاعون (Black Plague) کے بعد تاریخ کایہ سب سے بڑا انسانی دھچکا ہے۔“[1] وہ مزید لکھتا ہے کہ اوسط عمر میں اضافہ کے سبب ترقی یافتہ اقوام میں آئندہ چند دھائیوں میں باپ دادا کی صورت میں بوڑھے تو موجود ہونگے لیکن ان کو معاشی طور پر سنبھالا دینے کے لئے نوجوان نسل کا فقدان ہو گا جس کے نتیجے میں شدید معاشی بحران پیدا ہوجائے گا۔ وہ سوال کرتا ہے کہ اس سکڑ تی ہوئی آبادی میں بقا کا کیا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے؟ پھر کہتا ہے کہ اگر یورپ کو اس سوال کا جواب جلد نہ ملا تو یورپ کی موت واقع ہو جائے گی۔[2] اس زوال کا سبب اس کے خیال میں مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی اور کم شرح آبادی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ خاندانی نظام اور مغربی زوال کے بارے میں اسی سے ملتا جلتا تجزیہ ایک اور مغربی مفکر ولیم جے بینٹ(William J. Benett) نے اپنی کتاب The Broken Hearth میں کیا ہے ۔[3] برنارڈ لیوس(Bernard Lewis)نے اپنی کتاب "The Crises of Islam" میں، اور ہنٹنگٹن(Huntington) نے "The Clash of Civilizations" میں بھی مستقبل کے منظر نامے میں آبادی کے کردار کے بارے میں اسی طرح کا تجزیہ پیش کیا ہے۔