کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 127
عالمی سیاسی منظر نامے کا باعث دنیا کی آبادی کی شرحِ نمو کو ہی قرار دیا گیا ہے۔ ان رپورٹس کے مطابق ”آنے والے دور میں بین الاقوامی اقتصادی تعلقات اور اقتصادی و سیاسی ترقی کا انحصار آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح پر ہوگا اور یہی بین الاقوامی اُمور میں اختیارات کی از سر نو تقسیم کی بنیاد ہو گی۔“[1] ان تجزیوں کے مطابق مستقبل میں ترقی اور غلبے کا انحصار چونکہ آبادی میں اضافے پر ہوگا، لہٰذا امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی نے 1990ء میں ’نوجوانوں کی قلت‘ (Youth Deficits) کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جس میں امریکہ کی کم شرح آبادی پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں 15 سے 24 برس کی عمر کی آبادی میں شدید کمی واقع ہو جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق اس عمر کے افراد کی خصوصی اہمیت ہے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو نئی کام کرنے والی قوت بنتے ہیں اور اسی پر معاشی ترقی کا انحصار ہو تا ہے۔ سی آئی اے(CIA) کے تجزیہ کے مطابق 1980 ء تک 5 ملین سے زیادہ آبادی کا کوئی ملک ایسا نہ تھا جسے نوجوانوں کی کمی کا سامنا ہو ۔ لیکن 1990ء تک تقریباً 15 ممالک میں نوجوان آبادی میں کمی واقع ہو چکی تھی، جو کہ ایک اندازے کے مطابق سال 2010ء تک کم از کم 29 ممالک میں نو جوانوں کی کمی ہو گی، ان میں تقریباً سبھی صنعتی ممالک اور بعض اہم ترقی پذیر ممالک شامل ہوں گے۔[2] امریکن انٹر پرائز انسٹیٹیوٹ واشنگٹن ڈی سی کے ایک سکالر ویٹن برگ (Wattenberg) شرحِ آبادی کا تجزیہ کر تے ہوئے اپنی کتاب’قحط الاطفال‘(The Birth Dearth) میں زیادہ آبادی کو ہی دنیاپر مغربی غلبے کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اس کے خیال میں ”مغرب کا دنیا پر غلبہ اس وقت ہوا جب اس کا حصہ دنیا کی آبادی میں تقریباً22 فی صد تھا جو 1987ء تک 15 فی صد رہ گیا تھا لیکن مغرب کا غلبہ اب بھی موجود ہے۔ لیکن جب 2025ء میں مغربی آبادی دنیا کی آبادی کا 9 فی صد سے بھی کم رہ جا ئیگی ا ور 2100ء میں صرف 5 فی صد رہ جائے گی، تو اس وقت کی عظیم طاقتیں (Super Powers) تیسری دنیا کی اقوام ہوں گی جن کو اس وقت آبادیاتی فوقیت حاصل ہو گی۔“[3]